کوئٹہ /اسلام آباد/پشاور:پاکستان اور افغانستان کے درمیان اسپن بولدک بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی گئی ہے، ذرائع کے مطابق فی الحال سرحد صرف تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چند حساس معاملات کے باعث عام شہریوں کی پیدل آمدورفت کی اجازت تاحال نہیں دی گئی۔سرحد کے دونوں جانب ٹریڈ کراسنگ اور کلیئرنس سے متعلقہ حکام اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔
صرف خالی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ افغان ڈرائیورز کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قراردیا گیا ہے جبکہ دیگر تین کراسنگ پوائنٹس غلام خان، انگور اڈہ اور خرلاچی فی الحال غیر فعال رہنے کا امکان ہے۔
ادھرسفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکام نے سرحد کھولنے پر اتفاق کرلیا ہے۔پاکستانی سفارتی حکام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اور تنازع نہ ہوا تو طورخم بارڈربھی کھول دیا جائے گا۔
دوسری جانب پاک افغان طورخم تجارتی گزرگاہ تجارت کے لیے کھولنے کی تیاریاں شروع کردی گئیں جب کہ کسٹمز حکام نے عملے کو فوری طور پر طورخم ٹرمینل پر حاضر ہونے کا حکم دے دیا۔
کسٹمز ذرائع نے کہا کہ کارگو گاڑیوں کی کلیئرنس کے لئے اسکینر طورخم ٹرمینل پہنچا دیا گیا،سرحد پر کشیدگی کے باعث اسکینر کو 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب ٹرمینل سے ہٹایا گیا تھا۔کسٹمز ذرائع کے مطابق طورخم سرحدی گزرگاہ 9 روز قبل پاک افغان کشیدگی کے باعث بند کر دی گئی تھی۔
کسٹم ذرائع کے مطابق پاکستان افغانستان کو سیمنٹ، ادویات، کپڑا اور سبزیاں برآمد کرتا ہے جبکہ افغانستان سے کوئلہ، سوپ سٹون، خشک اور تازہ پھل درآمد کیے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان یومیہ 85 کروڑ روپے کی دو طرفہ تجارت ہوتی ہے۔
ادھرافغان سیکورٹی ذرائع نے کہاہے کہ افغانستان کی طرف سے بھی سیکڑوں کی تعداد میں مسافر طورخم سرحد پر پہنچ گئے ہیں، انہیں بھی اطلاع ملی ہے کہ بارڈر کھولا جا رہا ہے۔
قبل ازیں طورخم بارڈر بندش سے دو طرفہ تجارت اور پیدل آمدورفت معطل رہنے سے سرحد کے دونوں جانب اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا، پاک افغان شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔
حالیہ کشیدگی اور تنا ئوکی صورتحال سے دونوں جانب کے تاجر اور ٹرانسپورٹرز انتہائی پریشان ہیں، مال بردار گاڑیوں میں لدا سامان خراب ہونے کا خدشہ ہے۔تاجر اور ٹرانسپورٹرز میں فیصلے سے خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان کشیدگی کا بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل نکالا جائے، پاک افغان بارڈر پر کشیدگی کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
دریں اثناء الجزیرہ عربیہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ امن معاہدہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔
پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں گے ورنہ خطے کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں،انہوں نے قطر اور ترکیہ کی ثالثی اور تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے اس معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ گزشتہ ہفتے دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان براہِ راست جھڑپ کی صورت اختیار کرلی تھی جس کے بعد دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ دہشت گردی کے فوری خاتمے کے بغیر امن ممکن نہیں۔
خواجہ آصف کے مطابق معاہدے کا بنیادی مقصد سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو ختم کرنا اور دو طرفہ تناؤ کا خاتمہ ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے آئندہ ہفتے ایک اجلاس استنبول میں منعقد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ”افغان وزیر دفاع نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردی ہی دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی اصل وجہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے مؤثر طریقہ کار اپنایا جائے گا”۔خواجہ آصف کے مطابق قطر اور ترکیہ کی موجودگی اس معاہدے کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات معمول پر آجائیں گے، سرحدی کشیدگی کم ہوگی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور ٹرانزٹ سسٹم دوبارہ بحال ہوسکے گا۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ اب افغانستان دوبارہ پاکستانی بندرگاہوں کو استعمال کرسکے گا، جبکہ وہ افغان مہاجرین جن کے پاس قانونی ویزے اور شناختی کاغذات موجود ہیں وہ پاکستان میں رہ سکیں گے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جن مہاجرین کے پاس دستاویزات نہیں، ان کی واپسی کا عمل جاری رہے گا۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاک افغان بارڈر کا استعمال اب باضابطہ اور عالمی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی غلط فہمی یا تناؤ پیدا نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ ہم سو فیصد مطمئن ہیں، ہمیں آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دیکھنا ہوگا کہ اس معاہدے پر کتنا مؤثر عمل درآمد ہوتا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان صدیوں سے ہمسایہ ممالک ہیں اور جغرافیہ بدلا نہیں جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک اعتماد اور تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں گے تاکہ خطے میں امن اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکے۔

