کراچی/خیبر:فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کراچی پورٹس سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ٹرانسپورٹیشن روکنے کے احکامات جاری کر دیے۔ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ ہیڈ کوارٹر کسٹمز ہائوس کراچی میں ڈی جی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ڈائریکٹر افغان ٹرانزٹ کوئٹہ اور پشاور نے زوم پر شرکت کی۔
اجلاس کے بعد کسٹمز جنرل آرڈر 98.2025 جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ٹرانسپورٹیشن غیر معینہ مدت تک کیلئے معطل کی جا رہی ہے کیونکہ کوئٹہ اور پشاور کسٹم اسٹیشنز پر مزید کنیٹنرز کھڑے کرنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
اس لیے تمام ٹرمینلز افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے وہ کنینٹرز جوکہ گاڑیوں پر لوڈ ہو چکے ہیں انھیں آف لوڈ کر دیں، ساتھ ہی افغان ٹرانزٹ کے تمام گیٹ پاسز منسوخ اور اس کی ٹرانسپورٹ روک دی جائے، یہ حکم نئی صورتحال تک نافذ رہے گا۔
کسٹمز کے اس آرڈر کے بعد کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے تمام ٹرمینلز نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی کلیئرنس روک دی ہے۔کسٹمز ذرائع کے مطابق ایس اے پی ٹی پر ٹی پی کنٹینرز کی طویل قطاریں لگی ہو ئی ہیں سینکڑوں کنیٹنرز گاڑیوں پر لوڈ کھڑے ہیں اور سینکڑوں کوئٹہ اور پشاور کے راستوں میں کھڑے ہیں، ڈرائیور بارڈر کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ادھر پاک افغان بارڈر طورخم پر کشیدگی کے باعث پانچویں روز بھی سرحد بند ہے جس سے دو طرفہ تجارت، کاروباری سرگرمیاں اور آمدورفت مکمل طور پر معطل ہو گئی ہے۔
طورخم بارڈر کی بندش کے باعث پاک افغان شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں جبکہ سرحدی علاقے میں کاروبار بند ہونے سے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کو روزانہ کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔
تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان مسئلے اور سرحدی تنائو کا بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل نکالا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ کشیدگی کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں اور بارڈر کی بندش سے دونوں ممالک کے عوام اور کاروباری طبقے متاثر ہو رہے ہیں۔
دریں اثناء پاکستان نے افغان مہاجرین سے متعلق پالیسی سخت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یو این ایچ سی آر کے مطابق رواں سال 93 ہزار افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کیا گیا، پاکستان میں اس وقت 23 لاکھ افغان شہری موجود ہیں، 12 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پی او آر کارڈ ہولڈرز ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 7 لاکھ 37 ہزار اے سی سی ہیں، 2 لاکھ سے زائد لوگوں کے پاس دستاویزات ہی موجود نہیں، رجسٹرڈ افغان مہاجرین میں 67 فیصد مہاجرین کیپمس سے باہر ہیں۔یو این ایچ سی آر کا مزید کہنا تھا کہ 33 فیصد مہاجرین کیمپوں یا بستیوں میں قیام پذیر ہیں، ان میں سے 53 فیصد خواتین اور 47 فیصد مرد ہیں۔