اسلام آباد:بیرون ملک سے رقوم کی منتقلی پر حد سے زیادہ وصول کی جانے والی فیسوں کو ”اسکینڈل” قرار دیتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ منی ٹرانسفر آپریٹرز کی جانب سے ترسیلات پر فی ٹرانزیکشن چارجز ایک روپے سے بڑھ کر 4.5 روپے کردیے گئے ہیں جس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ حیران رہ گئی۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو کے تحت ملک کی ترسیلات ریکارڈ 38 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جس کے باعث بینکوں اور MTOs کو فیس کی مد میں 130ارب روپے تک حاصل ہوئے، بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے فی ٹرانزیکشن چارجز اوسطاً 20 ریال سے بڑھا کر 35 سعودی ریال کر دیے تھے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس ترغیبی پیکیج سے ترسیلات میں اضافہ ہوا تاہم اب یہ شرح کم کر کے فی ٹرانزیکشن 20 ریال کر دی گئی ہے۔اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عنایت حسین نے بینکوں اور MTOs کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فی ٹرانزیکشن لاگت پاکستان میں اوسطاً 8.2 ڈالر، بھارت میں 10.2 ڈالر اور بنگلا دیش میں 13.9 ڈالر ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ افسر نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت رواں مالی سال ترغیبی اسکیم پر 80 سے 100 ارب روپے خرچ کرے گی۔سلیم مانڈوی والا نے مرکزی بینک کو تجویز دی کہ اضافہ واپس لے کر اسے دوبارہ ایک روپے کی سطح پر بحال کیا جائے کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ چارجز سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔