رپورٹ: علی ہلال
پاکستان اور سعودی عرب کے بدھ کے روز ہونے والے مشترکہ دفاعی معاہدے نے مشرق وسطی کے سیاسی وعسکری منظر نامے میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما کی ہیں ۔ اسلامی دنیا کی اکلوتی ایٹمی طاقت اور مشرق وسطی کے بڑے دفاعی دفاعی بجٹ اور دنیا کے دوسرے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک کے درمیان دفاعی معاہدے کو مغربی ممالک اور بالخصوص اسرائیل و امریکا غیر معمولی اہمیت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اس معاہدے میں مزید اسلامی ممالک بھی شامل ہونے کا خیال ظاہر کیا جارہاہے ۔
مغربی میڈیا میں اس حوالے سے آرٹیکلز، مضامین اور رپوٹوں کا سلسلہ جاری ہے۔ برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان جوہری اور فوجی شراکت داری کی جڑوں اور اس کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 1970 کی دہائی سے سعودی مالی معاونت نے اسلام آباد کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی راہ پر گامزن کرنے میں کردار ادا کیا۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان جوہری اتحاد کا آغاز 1998ء میں ہوا، جب اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو فون کرکے حمایت طلب کی، اس صورت میں کہ اگر اسلام آباد بھارتی جوہری تجربے کا جواب دیتا جو پاکستان کی سرحد کے قریب کیا گیا تھا۔ چند دنوں بعد سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کے لیے یومیہ تقریباً 50 ہزار بیرل تیل مفت فراہم کیا تاکہ وہ مغربی پابندیوں پر قابو پا سکے۔ موجودہ وزیراعظم شہبازشریف نے پاکستانی آرمی چیف کے ہمراہ ریاض کا دورہ کیا جہاں ایک نئے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ یہ معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب خطہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، امریکا پر کم ہوتے ہوئے اعتماد اور ایران کے ساتھ تنازعات کے سبب شدید اضطراب کا شکار ہے۔ اگرچہ معاہدے کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں، تاہم یہ سعودی عرب کی اس خواہش کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کے ساتھ پرانے اتحاد کو مزید مستحکم کرے۔ وسیع جیو اسٹریٹیجک تبدیلیوں کے پس منظر میں جب اسرائیل اور امریکا مشرق وسطی کے نظام کو ازسرِنو ترتیب دے رہے ہیں، سعودی عرب ایک پرانے اور لچکدار دوست کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ کسی ایک موقع کے ردعمل کے طور پر نہیں بلکہ خطے میں رونما ہونے والی وسیع تر تبدیلیوں کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، خصوصا ایسے وقت میں جب امریکا کی طرف سے سلامتی کی ضمانتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ماہرین کے نزدیک اس دفاعی معاہدے کے گرد پایا جانے والا ابہام دراصل سعودی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جسے شاہی محل کے قریبی حلقے “ممکنہ پاکستانی ایٹمی چھتری” قرار دے رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ معاہدہ سعودی عرب کو روایتی سکیورٹی ضمانتیں، پاکستانی فوجی تربیت اور تجربہ فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ایک اسلامی ایٹمی قوت کی علامتی حمایت بھی دکھاتا ہے۔ تاہم اس سے پاکستان کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ اس کی توجہ زیادہ تر بھارت پر مرکوز رہتی ہے نہ کہ مشرقِ وسطی پر، بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں۔ یہ پیش رفت اسرائیل اور امریکا کے خدشات کو بھی بڑھا رہی ہے جو پہلے ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ سمجھتے ہیں۔
ایک سابق اعلی اہلکار جو پاکستانی اور اسرائیلی حکام کے درمیان جوہری نظریے پر ہونے والی خفیہ بات چیت سے آگاہ تھے، نے بتایا کہ “امریکی اور اسرائیلی ہمیشہ سے اس بات پر فکرمند رہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور یہ معاہدہ ان خدشات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جنگ نے ریاض اور واشنگٹن کے درمیان طے پانے والے طویل المدتی دفاعی معاہدے کو معطل کردیا ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ تعلقات کی بحالی بھی موخر ہوگئی ہے۔ اب یہ نیا معاہدہ بھی ریاض اور تل ابیب کے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت اور اسرائیل مزید قریب آسکتے ہیں، پاکستان پر اضافی پابندیوں کا خطرہ منڈلا سکتا ہے اور اس کی نازک جغرافیائی حیثیت چین، ایران، سعودی عرب اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں دباو کا باعث بن سکتی ہے۔ ادھر بھارت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کے اپنے قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لے گا مگر امکان ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعلقات کو تیزی سے نہیں بڑھائے گا بلکہ اپنی کثیرالجہتی خارجہ پالیسی پر عمل جاری رکھے گا۔ اسی دوران سعودی عرب کو یقین ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات برقرار رہیں گے، کیونکہ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت مملکت کی سکیورٹی ضروریات اور پاکستان کے ساتھ اس کے تاریخی رشتوں کو بخوبی سمجھتا ہے۔
رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا کہ اس دفاعی معاہدے کی کھلی اور مبہم نوعیت اسرائیل اور امریکا کے لیے ایک پیغام ہے ۔دوسری جانب اسلامی ممالک بالخصوص مشترق وسطی کی سطح پر اس معاہدے کو بہت سراہا گیا ہے۔ مصر نے ایک تازہ بیان میں پاک سعودی دفاعی معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے ۔ ادھر سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدے کے بعد ترکی کے ساتھ فوجی تعاون کو مزید فروغ دینے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔جمعہ کے روز استنبول میں سعودی نائب وزیر دفاع برائے ایگزیکٹو امور خالد البیاری نے ترک حکام سے ملاقاتیں کیں، جن میں ترک دفاعی صنعت کے سربراہ خلوق غورگون اور وزیر صنعت و ٹیکنالوجی محمد فاتح قاجر شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں دفاعی صنعت، ٹیکنالوجی کی مقامی تیاری اور سعودی عرب کی صلاحیتوں کو جدید بنانے کے حوالے سے مشترکہ تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔یہ ملاقاتیں سعودی وزارت دفاع کے وفد کی شرکت کے موقع پر ہوئیں جو استنبول میں منعقدہ فضائیہ، خلائی اور ٹیکنالوجی میلے “ٹیکنو فیسٹ” میں شریک تھا۔ وفد نے اس موقع پر دفاع اور خلا کے شعبوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور ایجادات کا جائزہ بھی لیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدامات سعودی عرب کی اس پالیسی کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ دفاعی شعبے میں اپنی بین الاقوامی شراکت داری کو بڑھانا چاہتا ہے اور ترکی جیسی دفاعی صنعت میں نمایاں ریاستوں کے ساتھ تکنیکی و علمی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے۔خیال رہے کہ رواں سال مارچ میں سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ترکی کا سرکاری دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے اپنے ہم منصب یاشار غولر سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، فوجی تعاون کے امکانات اور علاقائی و عالمی سکیورٹی صورتِ حال پر بات چیت کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے اعلی فوجی و سفارتی حکام بھی شریک ہوئے تھے۔ اس سے قبل گزشتہ دسمبر میں سعودی اور ترک افواج کے سربراہان کی قیادت میں مشترکہ فوجی کمیٹی کا چھٹا اجلاس بھی ہوا، جس میں دفاعی اور عسکری تعاون کے فروغ پر زور دیا گیا۔واضح رہے کہ سعودی عرب نے سال 2025ء کے لیے 78 ارب ڈالر کی دفاعی بجٹ مختص کی ہے، جو مشرق وسطی میں سب سے بڑی دفاعی لاگت ہے۔ یہ بجٹ مملکت کی اس خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی دفاعی صنعت کو اندرونِ ملک ترقی دے اور ترکی کو اس عمل میں ایک اہم شراکت دار اور جدید فوجی ٹیکنالوجی فراہم کرنے والا ملک بنائے۔
