پاکستان کی نصف معیشت سیلابی خطرات کی زد میں ہے، وزارت پلاننگ کا انتباہ

پاکستان کی معیشت کو درپیش نئے خطرات پر تشویشناک انکشاف سامنے آیا ہے کہ ملک کی نصف معیشت سیلابی خطرات کی زد میں ہے۔ وزارتِ پلاننگ کی دستاویزات کے مطابق وہ شہر اور علاقے جو مختلف نوعیت کے سیلابوں سے متاثر ہوسکتے ہیں، قومی جی ڈی پی میں تقریباً 50 فیصد حصہ ڈال رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان شہروں میں بڑے پیمانے پر سیلاب آیا تو ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ لاہور سیلابی خطرات کی زد میں سب سے نمایاں شہر ہے جو ملکی جی ڈی پی میں 11.5 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ اسی طرح کراچی جسے ملک کا معاشی حب کہا جاتا ہے، بھی سیلابی خطے میں آتا ہے اور اس کا جی ڈی پی میں حصہ 20 فیصدہے۔رپورٹ کے مطابق پشاور، ملتان، کوئٹہ، اسلام آباد اور راولپنڈی بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ پشاور کا قومی معیشت میں 2 فیصد، ملتان کا 3 فیصد، کوئٹہ کا 1.1 فیصد جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کا مجموعی طور پر 2.3 فیصد حصہ ہے۔

وزارتِ پلاننگ نے اپنی رپورٹ میں انتباہ کیا ہے کہ ان شہروں کو نہ صرف اربن فلڈنگ بلکہ دریائی سیلاب جیسے دوہری خطرات لاحق ہیں، جو انہیں انتہائی حساس بنا دیتے ہیں۔ کسی بڑے سیلاب کی صورت میں یہ شہر نہ صرف تباہی کا شکار ہوں گے بلکہ پاکستان کی مجموعی معیشت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ادھرنیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف)نے 2018ء سے 2024ء کے دوران پاکستان بھر میں 16بڑے منصوبے مکمل کیے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 6.5ارب روپے سے زائد ہے۔یہ منصوبے ملک کو قدرتی آفات خصوصا سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، خشک سالی اور دیگر موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ صوبائی و ضلعی سطح پر ریسکیو اور ایمرجنسی خدمات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے تھے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق منصوبوں میں ڈھانچہ جاتی اقدامات جیسے حفاظتی بندوں کی تعمیر اور بحالی کے ساتھ غیر ڈھانچہ جاتی اقدامات بھی شامل تھے، جن میں ابتدائی وارننگ سسٹمز، کمیونٹی کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی تربیت اور آگاہی پروگرام شامل ہیں۔

یہ تمام منصوبے قومی و بین الاقوامی شراکت دار اداروں کے تعاون سے بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے پسماندہ اور حساس اضلاع میں مکمل کیے گئے۔بلوچستان میں 20 کروڑ 19 لاکھ روپے کے منصوبے کوئٹہ اور چاغی میں سیلاب اور خشک سالی سے بچا کے ڈھانچے مضبوط بنانے کے لیے مکمل کیے گئے۔ضلع قلعہ سیف اللہ میں 40 کروڑ 7 لاکھ روپے کی لاگت سے کمیونٹی کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا گیا۔ آزاد کشمیر میں ایک ارب روپے سے زائد مالیت کے منصوبے پونچھ، نیلم، باغ، جہلم اور ہٹیاں بالا اضلاع میں لینڈ سلائیڈنگ روکنے اور سیلاب سے بچا ؤکے لیے نافذ کیے گئے۔

سندھ میں 68 کروڑ 50 لاکھ روپے کے منصوبے سیلابی حفاظتی اقدامات کے لیے مختص کیے گئے، جن کے تحت ضلع لاڑکانہ میں ہاجی پور اور آگانی اسپرس سمیت مختلف حفاظتی بندوں کی مرمت اور بحالی کی گئی تاکہ دریائی علاقوں میں رہنے والے عوام کو بچایا جا سکے۔پنجاب میں 65 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبوں کے تحت نارووال میں بین نالہ اور جلیالہ حفاظتی بند جبکہ شیخوپورہ میں ڈی ای جی نالہ کی بحالی کی گئی۔سب سے اہم منصوبوں میں سے ایک خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں ریسکیو 1122 خدمات کی توسیع تھی۔

اس مقصد کے لیے 2 ارب 26 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبے مکمل کیے گئے جن کے تحت جی بی کے 10 اضلاع اور کے پی کے 35 اضلاع بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایمرجنسی رسپانس نظام کو جدید بنایا گیا۔اس میں گاڑیوں کی فراہمی، ریسکیو آلات کی خریداری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے تاکہ ہنگامی حالات میں فوری اور مثر ردعمل یقینی بنایا جا سکے۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے لیے تقریبا 98 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے شمالی پاکستان میں مربوط پہاڑی تحفظ کے منصوبے کے دو مرحلے مکمل کیے گئے۔