نوشہرو فیروز،گھوٹکی میں اونچے درجے کا سیلاب،متعدد دیہات زیر آب

نوشہروفیروز/گھوٹکی /لاہور/ملتان:نوشہروفیروز میں دریائے سندھ میں اونچے درجے کی سیلابی صورتحال برقرار ہے، کچے کے اکثر دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔پرانی منجٹھ کے کچے میں واقع گاؤں شیر محمد کھوسو کو جانے والے تمام زمینی رابطے بھی منقطع ہوکر رہ گئے ہیں، پانی جمع ہونے سے سیلاب متاثرین ملیریا سمیت مختلف وبائی امراض میں مبتلا ہونے لگے ۔

کاشتکاروں نے سندھ حکومت سے امدادی پیکیج دینے کا مطالبہ کیا ہے۔گھوٹکی میں بھی کئی دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا،سیلاب متاثرہ علاقوں سے شہر کی طرف آنے کے لیے واحد زریعہ کشتی ہے، سیلابی پانی نے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا ہے۔

نواب شاہ میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہونے لگا ہے، کچے کے متعدد دیہات زیر آب آگئے ہیں، ریسکیو کے مطابق سیلاب میں پھنسے افراد کومحفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) پنجاب نے دریائے راوی ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ مختلف حادثات میں 127 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔دریائے راوی ستلج اور چناب میں شدید سیلابی صورتحال کے باعث 4 ہزار 700 سے زائد موضع جات اور 47 لاکھ 55 ہزار لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

دوسری جانب ستلج اور چناب نے اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ میں تباہی پھیردی، ملتان کے قریب جلال پور پیروالا پر موٹروے ایم 5 کا ایک اور حصہ سیلابی پانی میں بہ گیا،چیف پولیس افسر ملتان کے مطابق اس سے پہلے ایم فائیو کا مغربی حصہ سیلاب میں بہ گیا تھا، موٹروے پولیس اور این ایچ اے کا عملہ مشینری کے ساتھ موقع پر موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ موٹر وے پر دریائے ستلج کا پانی شدید بہاؤ کے ساتھ دریائے چناب کی جانب بہ رہا ہے، پانی کا بہاؤ کم کرنے کے لیے شگاف میں پتھر ڈالے جا رہے ہیں، ملتان سے جھانگڑہ تک 8 ویں روز بھی موٹروے بند ہے۔

ادھر علی پور میں 4 افراد ڈوب گئے،علی پور کے موضع گھلواں دوئم میں 15 سالہ کاشف گبول ڈوب کر جاں بحق ہوا، دوسرے واقعہ میں راشن لینے گئے تین ماموں بھانجا بھی سیلابی پانی میں ڈوب گئے، جاں بحق افراد کی شناخت نادر، رستم اور حافظ بابر کے ناموں سے ہوئی، پاک فوج، ایدھی فاؤنڈیشن اور ریسکیو ٹیم نے چاروں لاشیں برآمد کر لیں۔

منچن آباد میں ستلج کے پانی سے 60 دیہات زیر آب ہیں، بستی ورکاں والی، بستی کھرلاں، بستی بھٹیاں، بستی امانے والی اور بستی فاضل شدید متاثر ہیں، متاثرہ دیہات کے اطراف 6 سے 7 فٹ پانی موجود ہے، زمینی راستے بحال نہ ہو سکے۔ہر طرف سیلابی پانی سے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔

اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ کے علاقہ بڈانی ، چک کہل ، کچی شکرانی اور دیگر علاقوں کی رابطہ سڑکیں سیلابی ریلوں میں بہ گئیں، سیلاب متاثرین، خواتین ، بچے سیلابی پانی سے گزر کر گھروں کو واپس جانے لگے۔متاثرین اپنے منہدم مکانات، فصلوں اور باغات کی تباہی دیکھ کر اشک بار ہو گئے۔

چک کہل ، رسول پور ، مکھن بیلہ ، بختیاری ، اسماعیل پور ، ترنڈ بشارت اور دیگر علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی موجود ہے، سیلاب متاثرین نے مکانات اور فصلوں کے نقصانات کے جلد ازالہ کا مطالبہ کیا ہے۔دوسری طرف بہاولنگر کے مقام پر نچلے درجے کے سیلاب سے فصلیں تباہ ہو گئیں، زمینی رابطے منقطع ہو گئے۔

سیلاب سے شجاع آباد کی بستی ماڑا میں خوفناک تباہی ہوئی، متاثرین تاحال گھروں میں آباد نہیں ہو سکے۔لیاقت پور سے سندھ اور چناب کے ریلے گزر گئے مگر نشانات پیچھے چھوڑ گئے ہیں، 35موضع جات کی سیکڑوں بستیوں میں مکانات منہدم ہو چکے، فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔

کچے کے علاقوں سے دریائے سندھ کا سیلابی پانی کم ہونا شروع ہوگیا ہے، سیہون کی تین یونین کونسلز کے کچے میں سیلابی صورتحال برقرار ہے۔سیہون تحصیل کے 50 اور مانجھند تحصیل میں 20 سے زائد دیہات زیر آب ہیں، سیکڑوں ایکڑز پر مشتمل کپاس، پیاز، آلو سمیت دیگر فصلیں ڈوب چکی ہیں۔

کچے کے رہائشی اپنے گھروں تک محدود ہیں اور انہوں نے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے سے انکار کیا ہے۔دریائے سندھ کے سیہون لاڑکانہ بند پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔