بھارت میں مودی کا دورِ اقتدار’ اختلاف رائے کا اظہار گناہ قرار

نئی دہلی : بھارت میں نریندر مودی کے دور اقتدار میں آزادی اظہار جرم بنا دیا گیا ہے اور اختلاف رائے کا اظہار گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔
ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی سرکار میں بھارت میں آزادی اظہار اور صحافت پر بڑھتی پابندیوں کے حوالے سے بین الاقوامی جریدے الجزیرہ نے تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ، جس میں مودی کے زیر اقتدار بھارت میں سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی جریدے الجزیرہ کے مطابق سہیوگ کے ذریعے میٹا اور گوگل سمیت متعدد سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکومت مخالف پوسٹس ہٹانے کا نوٹس دے دیا۔ اکتوبر 2024 میں مودی سرکار نے سہیوگ پلیٹ فارم کے ذریعے ضلعی افسران اور پولیس کو بھی سنسرشپ اختیارات دیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 سے اب تک 3,465 URLs پر تقریبا 300 ٹیک ڈائون کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ سہیوگ سیکشن 79(3)(ب استعمال کر کے سپریم کورٹ کے حفاظتی اقدامات کو بائی پاس کرتا ہے۔ ہزاروں نامعلوم افسران یکطرفہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کونسی معلومات “غیر قانونی” ہیں اور بھارت بھر میں بلاک ہونی چاہییں ۔
اسی طرح ایکس کے مطابق سیکشن 69A صرف استثنائی حالات میں استعمال ہوتا ہے، مگر سیکشن 79(3)(ب میں افسران کو مکمل بلاکنگ اختیار دیا گیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مودی کے اقتدار میں 2014 کے بعد سے ٹیک ڈان آرڈرز میں مسلسل اضافہ ہوا اور 2022 تک یہ 14 گنا بڑھ گئے۔الجزیرہ کے مطابق آزاد میڈیا آٹ لیٹ مکتوب، صحافی انورا دھا بھاسن (کشمیر ٹائمز) اور حتی کہ رائٹرز کو بلاک کرنے کے بھی احکامات دیے گئے۔