اسلام آباد : پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات خطرناک ہیں اور اگلے سال اس کی شدت 22 فیصد زیادہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بات ملک کی موجودہ صورتحال پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کو دی گئی بریفننگ کے دوران کہی۔ لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر کا کہنا تھا کہ اگر درجہ حرارت بڑھتا رہا تو گلیشیئرز ختم ہو جائیں گے، آنے والا سال بدقسمتی سے زیادہ مشکل ہو گا۔ انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ مون سون کا موجودہ دباؤ 10 ستمبر تک جاری رہے گا، پاکستان کے پانی کے ذخیروں کی نگرانی کی جارہی ہے، ممکنہ سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر ستلج کے علاقے سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو نکالا جا چکا ہے۔
گلگت بلتستان میں ہونے والی تباہی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ جن جگہوں کو نقصان پہنچا ہے، انھیں دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، اب تک مختلف علاقوں میں 2100 ٹن امدادی سامان بھجوایا جا چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کئی جگہوں پر لوگ پانی کے راستوں پر رہ رہے تھے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کے نشیبی علاقوں کو خالی کروا دیا جائے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے اگلے سال مون سون مزید 30 فیصد شدید ہونے کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے سال مون سون اپنے وقت سے 15 روز پہلے آئے گا، آئندہ برس مون سون کے دو سے تین سپیل زیادہ ہوں گے ، مون سون شروع بھی جلد ہوگا اور ختم بھی لیٹ ہوگا۔
ایک انٹر ویو میں مصدق ملک نے کہا کہ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے ، ہمیں مضبوط اور پائیدار نظام بنانے کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں زمین سے متعلق معلومات کے لیے اے آئی ایجنٹس کا استعمال، موسمیاتی تغیرات کی نگرانی، جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے حیاتیاتی لچک، موسمیاتی لحاظ سے محفوظ انفراسٹرکچر، کمیونٹی اور حکمرانی کے نظام کی تشکیل جیسے اقدامات کے ذریعے ہم ایک پائیدار اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط ملک کی تعمیر میں مدد دے سکتے ہیں۔
