نئی موٹر وہیکلز پالیسی پرقائمہ کمیٹی خزانہ کے تحفظات

اسلام آباد: قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سید نوید قمر نے کہا ہے کہ نیو الیکٹرک وہیکلز پالیسی کی بنیاد پر کاربن لیوی عائد کی گئی، حکومت سمجھ رہی ہے ہمارا کام ہوگیا پارلیمنٹ بھاڑ میں جائے، پالیسی پر بریفنگ دینے کا وعدہ کیا، بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ کو گمراہ کیا گیا۔

سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو راشد لنگڑیال نے بریفنگ دی۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ فاٹا پاٹا کے علاقوں میں جو چیز وہاں تیار ہوکر وہیں سپلائی ہوتی ہے وہاں ٹیکس نہیں ہے جو اشیاء وہاں سے تیار ہوکر ٹیرف والے ایریا میں آتی ہیں ان پر ٹیکس ہے، ان علاقوں میں اگر غربت ہے تو وہاں پر جو استعمال کی اشیاء ہیں اس پر سبسڈی دی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا پاٹا کے لوگوں کو جو اشیاء یہاں سے جا رہی ہیں ان پر پہلے بھی سیلز ٹیکس تھا آج بھی ہے۔رکن کمیٹی مبین جٹ نے کہا کہ فاٹا پاٹا کے لوگوں کو علاقے کے حساب سے اشیاء پر مختلف شرح سے سبسڈی دی جائے۔

رکن کمیٹی شہرام ترکئی نے کہا کہ فاٹا پاٹا کو ٹیکس سے چھوٹ کا مقصد یہ تھا کہ وہاں انڈسٹری لگے اور لوگوں کو روزگار ملے۔چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ ہم نے فاٹا پاٹا میں اشیاء کی لوکل کھپت پر ٹیکس لگانے پرسوال اٹھایا ہے، امپورٹ و ایکسپورٹ پر ٹیکس سے متعلقہ معاملات سمیت سب کچھ پر بجٹ کے موقع پر تفصیلی بحث کی گئی۔

یہ معاملہ وہاں مقامی کھپت کا ہے، اسے صرف لوکل مینوفیکچررز اور لوکل کھپت تک محدود رکھا جایے۔چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ یہ ایشو جو کمیٹی کے پاس آیا ہے یہ حکومت کے پاس بھی آیا ہے، اس پر حکومت نے رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کررکھی ہے اس کا بھی آج اجلاس ہے، میری تجویز ہے اس اجلاس میں جو معاملات زیر غور آئیں ان کو دیکھ لیں ہوسکتا ہے وہاں کوئی راستہ نکل آئے۔

نوید قمر نے کہا کہ موجودہ ماحول میں فاٹا پاٹا میں کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں کررہا۔چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ پچھلے کئی سال سے وہاں ٹیکس کی چھوٹ تھی اتنے عرصے میں وہاں جنہوں نے انڈسٹری لگائی انہوں نے کافی کمالیا ہوگا، ابھی بھی وہاں دس فیصد ٹیکس ہے باقی ملک میں اٹھارہ فیصد ٹیکس ہے، صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ ہے فاٹا پاٹا میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ کا غلط استعمال ۔

رکن کمیٹی جاوید حنیف نے کہا کہ فاٹا کے نام پر سرمایہ کار فایدہ اٹھا رہے ہیں۔اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ اس سال 40 ارب ڈالر کی ترسیلات زر متوقع ہیں، پہلے سال 38 ارب ڈالر سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں، دو سو ڈالر یا اس سے زائد سرکاری چینل سے ترسیلات زر بھجوانے پر بیس ریال پر ٹرانزیکشن دیے جارہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ یہ اسکیم حکومت پاکستان کی ہے اسٹیٹ بینک دے ہی نہیں سکتی، برآمد کنندگان کو بھی ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم کے تحت مراعات دی جارہی ہیں، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بتدریج بہتر ہورہے ہیں، عالمی معیار کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر تین ماہ کے امپورٹ بل کے برابر ہونے چاہئیں۔

ابھی ہمارے روپے کی قدر فیئر ہے نہ انڈر ویلیو ہے اور نہ اوور ویلیو ہے، پہلے ہم غیر ملکی قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بلند کرتے تھے، اس بار لوکل سطع پر خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر بلند کئے گئے ہیں۔اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ بنیادی کام قیمتوں میں استحکام لانا ہے ساتھ ہی ہمارا کام مالی استحکام لانا ہے، ابھی بھی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تین ماہ کی امپورٹ سے تھوڑے سے کم ہیں۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اگلا اجلاس پندرہ ستمبر کوہوگا۔چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے وزارت صنعت و پیداوار کے حکام پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ نیو الیکٹرک وہیکلز پالیسی کی بنیاد پر کاربن لیوی عائد کی گئی ہے، کاربن لیوی لگانے کے بعد وزارت صنعت و پیداوار کمیٹی کو بریفنگ دینے کے لیے تیار نہیں، کاربن لیوی کو واپس کرانے کے لیے ترمیم لائی جائے گی۔

سید نوید قمر نے کہا کہ معاون خصوصی اور سیکریٹری صنعت و پیداوار کی غیر حاضری نا قابل برداشت ہے، وزارت صنعت و پیداوار کے اعلیٰ حکام نے نیو الیکٹرک وہیکلز پالیسی پر بریفنگ دینے کا وعدہ کیا تھا،بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ کو گمراہ کیا گیا۔