غزہ / جنیوا:اقوام متحدہ نے غزہ کو باضابطہ طور پر قحط زدہ قرار دے دیا،اقوام متحدہ کے ریلیف چیف اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے تشویشناک انکشاف کیا ہے کہ غزہ باضابطہ طور پر قحط زدہ ہوچکا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹام فلیچر نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی بریفنگ کے دوران اعتراف کیا کہ غزہ کا قحط ایسا تھا جسے ہم روک سکتے تھے لیکن ہمیں ہی کام سے روک دیا گیا۔انھوں نے مزید بتایا کہ خوراک سے بھرے ٹرکوں کا غزہ کی سرحدوں پر انبار ہے مگر اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔
ٹام فلیچر نے اسرائیلی بے رحمی کا زکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ قحط ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں کھانا وافر مقدار میں محض چند سو میٹر دور موجود ہے لیکن نہ امداد کو آنے کی اجازت ہے اور نہ فلسطینیوں کو وہاں جانے دیا جا رہاہے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ بحران بچوں، خواتین اور کمزور طبقوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ والدین کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ کس بچے کو کھانا کھلائیں۔ٹام فیچر نے کہا کہ یہ 21ویں صدی کا قحط ہے جسے ڈرونز اور جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی کے سائے میں دنیا دیکھ رہی ہے۔
انھوں نے نیتن یاہو کابینہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بعض اسرائیلی رہنما اس بھوک کو “جنگی ہتھیار” کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قحط ظالمانہ پالیسیوں، انتقامی سوچ، عالمی بے حسی اور شراکت داری کے باعث پیدا ہوا ہے۔ یہ پوری دنیا کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ادھر ڈھٹائی پر قائم اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے غزہ میں قحط کے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب حماس کا پروپیگنڈا ہے جنھیں مفاد پرست تنظیموں کے ذریعے پھیلایا گیا۔
صہیونی فوج نے غزہ میں نیا فوجی آپریشن شروع کر دیا،صہیونی فوج نے شمالی غزہ میں حملے بڑھا دیئے، تازہ حملوں میں مزید71 فلسطینی شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے، امدادی مراکز کے قریب حملوں میں 8 افراد شہید اور 91 زخمی ہوگئے، غزہ میں بھوک سے مزید 2 اموات ہوگئیں۔غذائی قلت سے اموات کی مجموعی تعداد 273 ہوگئی،غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کی سفاک بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں 71 فلسطینی شہید اور 251 زخمی ہوئے ہیں جنہیں غزہ کی مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔