مذاکرات ناکام،باجوڑ میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ،نقل مکانی شروع

وانا/باجوڑ/ لوئر دیر:جنوبی وزیرستان میں شر پسندوں نے سرکاری اسکول کو بارودی مواد سے اڑا دیا ۔ذرائع کے مطابق واقعہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل کے علاقے کراباغ میں پیش آیا۔

سرکاری ذرائع اور مقامی رہائشیوں نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں اسکول کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا جس میں متعدد کمروں اور چاردیواری کی تباہی شامل ہے، واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

پولیس ذرائع کے مطابق علاقے میں حالیہ بدامنی نے خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے جس کے باعث تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔دوسری جانب جنوبی وزیرستان لوئر کے مختلف علاقوں میں اتوار کو کرفیو نافذ رہا۔

خیبرپختونخوا محکمہ داخلہ و قبائلی امور نے ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان لوئر کی سفارش پر ایک روزہ دفعہ 144نافذ کی اور خلاف ورزی کی صورت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188کے تحت کارروائی کا اعلان کیا۔ کرفیو کا اطلاق صبح 6 بجے سے شام 7 بجے ضلع جنوبی وزیرستان لوئر کی تحصیل برمل میں کیا گیا، اس دوران ہر قسم کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی رہی اور مذکورہ حدود میں تمام بازار (بالخصوص رغزئی)اور مارکیٹس بند رہیں۔

دریں اثناء باجوڑ میں مقامی جرگہ اور عسکریت پسندوں کے درمیان جاری 10روزہ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو باجوڑ کی تازہ صورتحال پر پولیس اور متعلقہ سیکورٹی حکام کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں کے مطالبات ناقابلِ قبول ہیں جبکہ علاقے میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ حکام کے مطابق اس وقت باجوڑ کے تقریباً 20فیصد حصے میں دہشتگردوں کی فعال موجودگی ہے، جن میں سے 60 فیصد کا تعلق افغانستان سے ہے، جن کا مقصد باجوڑ کے راستے مہمند اور ملاکنڈ میں دوبارہ منظم ہونا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند جنہیں ریاستی ادارے خوارج قرار دے رہے ہیں مقامی آبادی کے درمیان چھپ کر کارروائیاں کر رہے ہیں جس سے سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں مزید پیچیدہ ہوگئی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت اور سیکورٹی اداروں نے قبائلی عمائدین کے سامنے تین نکات پر مشتمل متبادل حکمت عملی رکھی ہے۔

مقامی قبائل ان خارجیوں خاص طور پر افغان عناصر کو خود علاقہ بدر کریں، اگر ممکن نہ ہو تو ایک یا دو دن کے لیے علاقے کو خالی کر دیں تاکہ سیکورٹی فورسز ٹارگٹڈ آپریشن کر سکیں۔ اگر یہ دونوں اقدامات ممکن نہ ہوں تو کارروائی ہر صورت کی جائے گی، تاہم حتی الامکان شہری نقصانات سے گریز کیا جائے گا۔

سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان عسکریت پسندوں یا ان کے سہولت کاروں سے ریاستی سطح پر کسی قسم کی بات چیت ممکن نہیں جب تک وہ مکمل طور پر ریاست کے سامنے سر تسلیم خم نہ کر دیں۔ قبائلی جرگہ کو ایک آخری عوامی کوشش قرار دیا گیا تاکہ آپریشن سے قبل مقامی لوگوں کے تحفظ کو ممکن بنایا جاسکے۔

حکام نے واضح کیا کہ باجوڑ کی صورتحال میں وفاقی حکومت کا کردار بھی ناگزیر ہے اور اس معاملے میں مرکزی سطح پر رابطے تیز کر دیے گئے ہیں۔

باجوڑ کی تحصیل ماموند میں کشیدگی اور دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے باعث مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کاسلسلہ جاری ہے۔امدادی رضاکاروں کے مطابق ضلع سے اب تک پانچ سو سے زائد خاندان رجسٹر ہو چکے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں متاثرین بغیر رجسٹریشن کے کیمپوں سے روانہ ہو چکے ہیں۔

متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں جاری گولہ باری، کرفیو اور نیٹ ورک کی بندش نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے جس کے باعث وہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔متاثرین نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ امن کے قیام کے لیے فوری اقدامات کریں تاکہ عام شہری مزید مشکلات سے بچ سکیں۔

ادھر لوئر دیر میں امن مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے سینکڑوں کارکنان نے شرکت کی ۔امن مارچ کے شرکا نے امن کی علامت سفید پرچم اٹھا رکھے تھے اور علاقے میں قیام امن کے حوالے سے نعرے لگا رہے تھے ۔

اس موقع پر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے قومی جرگہ لوئر دیر کے رہنما حاجی بہادر خان نے کہا کہ علاقہ مزید بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا ،پائیدار امن کے قیام کے لئے تمام سٹیک ہولڈر اپنا کردار ادا کریں ۔مقررین نے واضح کیا کہ اس بار کسی صورت اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے ۔