اسلام آباد:قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک بار پھر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے پی ٹی آئی پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کردیاجبکہ اپوزیشن نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے شدید ردعمل دیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرِ صدارت ہوا، اجلاس میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے پی ٹی آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو یہاں لا کر بسانے میں سابقہ حکومت کا کلیدی کردار رہا۔
طلال چودھری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی اور انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔وزیر مملکت برائے داخلہ کے بقول ہمیں معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو یہاں لاکر کس نے بٹھایا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ضم شدہ اضلاع میں کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا تاہم روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے۔ طلال چودھری نے کہا کہ شیطان بھی مقبول ہے مگر فرشتہ نہیں بن سکا اور پاپولر ہونے کا مطلب بے گناہی نہیں ہوتا۔
آپ دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں،انکا کہنا تھا کہ میں زائرین سے بات چیت کے لئے کراچی جارہا ہوں، کچھ نکات پر ہم قریب آئے ہیں، حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ اس سفر کو ممکن اور آسان بنایا جائے، فلائٹس بڑھائی ہیں، غیر ملکی ایئرلائنز کو اجازت بھی ہے، کوشش کریں گے کہ اس مسئلے کو حل کریں۔
طلال چودھری نے سابق اسپیکر اسد قیصر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہر ایک کا حق ہے، اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی ایک درخواست ڈاک سے پہنچی، اسلام آباد میں 100 سے کم لوگ نکلے، پنجاب میں 954 لوگ نکلے، اسلام آباد میں کسی ممبر کو ہم نے ٹچ نہیں کیا، راستے کھلے تھے، گیٹ کھلے تھے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ وزیر مملکت نے غلط بیانی کی ہے، خیبرپختونخوا میں کسی بھی نئے آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کو رقوم کی فراہمی بلا تعطل جاری ہے اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات سابق حکومت کی پالیسی تھی، جو تاریخ کا حصہ ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ تمام جماعتوں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف مؤقف اپنانا ہوگا کیونکہ ایک پرامن پاکستان ہم سب کی ترجیح ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران جوابات نہ آنے پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے حکومت پر شدید برہمی کا اظہارِ کیا اور رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو غیر سنجیدگی سے لینا ناقابل قبول ہے۔
وزارتِ منصوبہ بندی کی جانب سے جوابات نہ آنے پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سیکرٹری منصوبہ بندی کو فوری طور پر ایوان میں طلب کیا۔ لابی میں موجود جونیئر افسر کو یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ آئندہ صرف سینئر افسر ہی آئیں اور پورا اجلاس سنیں۔
وزارتِ خزانہ کے سوالات کے جواب نہ آنے پر سیکرٹری خزانہ کو بھی طلب کر لیا گیا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ضرورت پڑی تو گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی ایوان میں بلائیں گے جبکہ فنانس کمیٹی کے چیئرمین کو ہدایت کی گئی کہ وہ دونوں افسران کو اجلاس میں طلب کریں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو انتہائی غیر سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سیکرٹریز کی عدم حاضری پر ایوان میں کھڑے ہو کر غیر مشروط معافی مانگ لی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میں وفاقی سیکرٹریز کی عدم موجودگی پر ایوان سے معافی مانگتا ہوں جس پر اسپیکر نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی رویہ رہا تو میں سخت ایکشن لوں گا اور سیکرٹریوں کو سارا دن ایوان میں بٹھاؤں گا۔
دریں اثناء اسپیکرنے اسٹیٹ بینک کا اسپیشل آڈٹ کرانے کا عندیہ دے دیا۔ پاکستان لینڈ پورٹ اتھارٹی بل 2025ء منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی نے بل کی کئی ترامیم پر اعتراض اٹھایا۔
نوید قمر نے کہا کہ یہ بل قائمہ کمیٹی میں آیا، اس بل کی کئی شقوں پر پیپلز پارٹی کے تحفظات ہیں۔ پیپلز پارٹی بل کو موثر بنانے کے لیے ترامیم پیش کرے گی۔ وزیر مملکت داخلہ نے نوید قمر کی پیش کی گئی ترامیم کی حمایت کی جس کے بعد اتھارٹی کے ممبران سے متعلق پیپلز پارٹی کی ترامیم منظور کرلی گئیں اور بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کیا گیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔ معاشی استحکام آیا ہے جس کے نتیجے میں پرائمری بیلنس بھی مثبت ہوا۔ پالیسی ریٹ بھی کم ہوا۔ بی آئی ایس پی کا بجٹ بڑھایا گیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔