الحنیذ: زیر زمین تیار ہونے والا سعودی عرب کا شاہکار پکوان ہے۔جنوبی سعودی عرب خاص طور پر’ عسیر‘ کے علاقوں کا دورہ ’الحنیذ‘ کا مزہ چکھے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
یہ ایک روایتی کھانا ہے جو ایک عام ڈش سے سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش شاہکار بن چکا ہے۔ یہ کھانا سیاحوں کی توجہ اور دلوں کو جیت لیتا ہے اور ان میں اسے تیار کرنے کے طریقوں کو دستاویزی شکل دینے کا تجسس پیدا کرتا ہے۔ آگ جلانے کے لمحے سے لے کر زمین کے اندر سے گوشت نکالنے تک تمام مراحل کو لوگ دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔
ذائقے سے بڑھ کر سیاحتی کشش
’الحنیذ‘ کو زائرین اور چھٹیاں گزارنے والوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملتی ہے۔ جو ’ابھا‘ اور محائل عسیر میں اس علاقے کی یادوں میں رچی بسی اس ڈش کا مزہ چکھنے آتے ہیں۔ یہ چیز الحنیذ کو محض ایک لذیذ پکوان سے ہٹ کر ایک مکمل تجربہ بنا دیتی ہے۔ اس تجربے میں روایت، انٹرایکٹو کھانا پکانے اور عسیری سخاوت کا امتزاج شامل ہوتا ہے۔
’المحنذ‘ میں کھانا پکانے کا راز
دنیا بھر کے باورچی اپنی ڈشز کے راز شاذ و نادر ہی ظاہر کرتے ہیں، لیکن سعودی شیف ابراہیم بشاشہ نے العربیة ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے اِس اصول کو توڑ دیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس ڈش کا راز ’المرخ‘ اور ’السلع‘ میں پنہاں ہے۔ یہ ایسے پودے ہیں جو گوشت کو ایک منفرد دھواں دار ذائقہ دیتے ہیں اور انہیں گوشت کو ’المحنذ‘ یعنی اس کے لیے مخصوص گڑھے میں رکھنے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔ بشاشہ نے مزید خبردار کیا کہ ایک اہم راز یہ ہے کہ پکانے سے پہلے گوشت میں نمک نہ ڈالا جائے اور انہوں نے اس کا تعلق پکنے کے بعد گوشت کی نرمی سے جوڑا۔لیکن کچھ ایسی باتیں ہیں جو عام لوگوں سے پوشیدہ ہیں اور الحنیذ جیسے روایتی کھانوں کی کامیابی کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ بشاشہ کے مطابق یہ اہم بات ذبیحہ کی عمر ہے اور وہ زور دیتے ہیں کہ جانور جتنا چھوٹا ہوتا ہے اتنا ہی لذیذ ہوتا ہے۔
القرم کی روٹی
انہوں نے تاریخی یادوں کو تازہ کیا اور ’القرم‘ یا ’المخبز‘ کے بارے میں بات کی۔ عسیر کے رہائشیوں کی روایات کے مطابق المخبز ایک ایسا گڑھا ہے جس کے اندر آٹا رکھا جاتا ہے تاکہ روٹی بنے جو ’الحنیذ‘ کے ساتھ ہی بہترین رہتی ہے۔
پکانے کا طریقہ اور سیاحوں کی رغبت
معروف باورچی اُم شاکر کا نظریہ اپنے ساتھی ابراہیم بشاشہ کی باتوں سے مختلف نہیں ہے، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الحنیذ پکانے کا طریقہ بذات خود ایک خوشی ہے جو علاقے کے خواہ مملکت کے ہوں یا غیرملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اُم شاکر کہتی ہیں کہ زائرین صرف ذائقہ چکھنے پر اکتفا نہیں کرتے، وہ تیاری کے مراحل کو قدم بہ قدم دستاویزی شکل دیتے ہیں۔ آگ جلانے سے لے کر گڑھا کھولنے تک کے عمل اُن کے لیے ایک دلچسپ اور پُرکشش طریقہ ہے۔ اس لیے ہر کوئی اسے فلمانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے خاندانوں اور جنوبی کھانے کے شوقین افراد میں شائع کیا جاسکے۔
’المیفا‘ میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں
اُم شاکر الحنیذ تیار کرنے کا طریقہ بیان کرتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کی تیاری کے اقدامات زمین میں ایک گڑھے ’المیفا‘ کے اندر لکڑیاں جلانے سے شروع ہوتے ہیں۔ پھر ہم کوئلے کے اوپر المرخ کے پودے رکھتے ہیں۔ اس کے بعد گوشت رکھا جاتا ہے۔ اسے ہوا کے داخلے کو روکنے کے لیے بیرل اور ریت کا استعمال کرتے ہوئے مضبوطی سے بند کر دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی رساو آگ کو دوبارہ بھڑکا سکتا ہے اور کھانے کو جلا سکتا ہے۔ محصور کوئلے کی حرارت گوشت کے پکنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ الحنیذ آہستہ آہستہ پکتا ہے اور کوئلہ اسے وہ نرم ساخت اور گہرا ذائقہ دیتا ہے جو اسے دوسرے پکوانوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔
عسیر کے نہ بھولنے والے پکوان
اُم شاکر نے کہا کہ الحنیذ کے علاوہ سیاح دیگر مستند عسیری پکوانوں جیسے خبز المیفا، العریکہ، المشغوثہ، الحلبہ اور الدوح کی طرف بھی راغب ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں منفرد ذائقے ہوتے ہیں جو دنیا کے کسی اور کھانے سے مشابہت نہیں رکھتے۔ بلاشبہ الحنیذ کھانے کی ایک ڈش سے ایک ثقافتی یادگار میں تبدیل ہوگئی ہے جو عسیری سخاوت کی عکاسی کرتی ہے اور اس کی کہانی نسل درنسل سنائی جاتی ہے۔ دعوتوں اور سماجی تقریبات میں اس کی پیشکش فخر اور تعلق کا اظہار ہے۔ خاص طور پر عیدوں اور شام تک جاری رہنے والے دوپہر کے کھانوں میں اس ڈش کو بڑے شوق سے پیش کیا جاتا ہے۔
سیاحوں کے لیے روزانہ کی منزل
محائل عسیر میں ’سوق الحنیذ‘ روزانہ کی کشش کا مرکز بن گیا ہے، خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں جہاں روایتی بازاروں اور جدید ریستورانوں میں پکوان پیش کیے جاتے ہیں جس میں جدیدیت اور روایت کا امتزاج ہوتا ہے۔ یہ بازار مستند ذائقہ کے تجربے کی تلاش میں چھٹیاں گزارنے والوں کے لیے ایک پسندیدہ منزل ہے۔ عسیر کے لوگ الحنیذ تیار کرنے کا طریقہ نسل در نسل منتقل کرتے چلے آرہے ہیں جس میں باریک تفصیلات شامل ہیں جو لکڑیاں منتخب کرنے سے شروع ہوتی ہیں اور گڑھے سے گوشت نکالنے پر ختم ہوتی ہیں۔ یہ رسومات اصلیت اور مقامی ثقافت کا گہرا اظہار ہیں جو ایک ایسے علاقے کی کہانی بیان کرتی ہیں جو آج بھی اپنی زندہ روایات کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ (بشکریہ: العربیہ۔ نادیہ الفواز)
