خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ کے علاقے خار میں گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے تیار کرلی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جائے وقوعہ سے موٹر سائیکل کے پرخچے، بارودی مواد، خون کے نمونے اور آئی ای ڈی کے ٹکڑے ملے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دھماکا ریموٹ کنٹرول یا ٹائمر ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش سے منسلک میڈیا ادارے ”اعماق نیوز ایجنسی” نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، جبکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بھی حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حملہ یا تو دونوں تنظیموں کے ممکنہ گٹھ جوڑ سے کیا گیا یا پھر دونوں کی جانب سے حملے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔سی ٹی ڈی حکام نے واقعے میں ملوث سات مبینہ دہشت گردوں کی نشاندہی کرلی ہے، جن کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
ادھر پشاور پولیس کے مطابق باجوڑ دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) تجاوزات کے خلاف آپریشن کے لیے اے سی ٹیم اور دیگر اہلکاروں کے ہمراہ ناؤگئی روڈ پر موجود تھے۔ اطلاع ملنے پر امدادی ٹیمیں موقع پر روانہ ہوئیں، لیکن حملے میں اے سی سمیت 4 افراد شہید ہو چکے تھے۔
ادھروانا میں پولیس کی گاڑی پر فائرنگ سے زخمی ڈی ایس پی کی حالت تشویش ناک ہے جب کہ ان کا گن مین لاپتا ہے۔جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں پولیس کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک سینئر افسر زخمی اور ایک اہل کار لاپتا ہو گیا۔ پولیس کے مطابق واقعہ اْس وقت پیش آیا جب پولیس ٹیم وانا سے توئے خلہ جا رہی تھی۔
حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے جنوبی وزیرستان کے ڈی ایس پی رحمن کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال وانا منتقل کیا گیا، جہاں اسپتال ذرائع نے ان کی حالت کو تشویشناک قرار دیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے بعد ایک اہلکار لاپتا ہے، جو ڈی ایس پی رحمن کا گن مین تھا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی مزید نفری موقع پر پہنچی، جس کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔
پولیس حکام کے مطابق واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے۔ حملے کے محرکات کے حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم فورسز نے علاقے میں الرٹ جاری کر دیا ہے۔