ایران میں ”رجیم چینج” (حکومت کی تبدیلی) کے لیے ایک عرصے سے امریکا اور اسرائیل نے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ قسم، قسم کی سازشیں، خفیہ حملے اور ہر ممکن پابندیوں کے علاوہ ایرانیوں کی ذہن سازی کے لیے ڈالروں کی برسات لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کے اپوزیشن گروپس بھی موجودہ رجیم کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ایرانی عوام اس مقصد کیلئے سڑکوں پر ابھی تک نہیں آئے، حتیٰ کہ اکتوبر 2022 میں مہسا امینی کے حراست میں قتل کے بعد سخت احتجاجوں میں بھی عوام کو رجیم چینج کی طرف لے جانا محض خواب ہی رہا۔ ماضی میں بھی کئی ممالک کی حکومتوں کے خاتمے پر امریکا کی جانب انگلیاں اٹھتی رہیں مگر وہ انکاری رہا، تاہم پہلی بار امریکا کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے سی این این سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ انھوں نے کئی بار دوسرے ممالک میں ”رجیم چینج” کے لیے وہاں کی اپوزیشن کی بغاوتوں میں مدد کی۔ جان بولٹن کے بقول ہماری رجیم چینج کی کوششیں وینزویلا میں ناکام ہوئیں۔ جان بولٹن کے اعتراف کے بعد سوشل میڈیا پر خارجہ پالیسی کے ماہرین نے 1953 میں محمد مصدق کی معزولی، ویتنام جنگ، افغانستان اور عراق میں امریکی کے کردار پر کڑی تنقید کی۔
نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ہمارا حملہ ایرانی عوام نہیں خامنائی اور ان کی حکومت کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ بہترین وقت ہے کہ عوام حکومت کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس موضوع پر جو رپورٹیں شائع ہوئیں، ان میں بی بی سی فارسی کی ایک رپورٹ توجہ طلب ہے جس میں خواتین کے انٹرویوز شامل کیے گئے اور بتایا گیا کہ عوام تبدیلی کیلئے بے چین ہیں۔ اس یک طرفہ رپورٹ میں ان مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں جو حکومت کے حق میں ہوئے اور عوام نے مطالبہ کیا کہ وہ دشمن کو بھرپور جواب دے۔ تل ابیب اور دیگر مقامات پر میزائل حملوں کے بعد عوام نے تشکر کے جلوس نکالے۔ بی بی سی فارسی کے ایڈیٹر نے ایران میں رجیم چینج کی قیاس آرائیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں ایسی کوئی صورتحال نہیں کہ لوگ سڑکوں پر آجائیں۔ مجاہدینِ خلق کی لیڈر مریم رجویر پورا نظام بدلنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن ان سے متفق لوگ بھی ایران سے باہر ہیں۔ مہسا امینی کے حراستی قتل کے بعد یورپ اور ایران میں شدید احتجاج بھی کسی منظم تحریک کو جنم نہیں دے سکے۔
رجیم چینج کیلئے عوامی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو اسرائیلی جارحیت کے بعد بادی النظر میں ملنا مشکل ہے۔ جنگ نہ رکی تو ہو سکتا ہے یہ آپشن بھی آگے بڑھے۔ امریکا اور اسرائیل سے نفرت ایرانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، وہ ماضی میں ڈاکٹر مصدق کا حال دیکھ چکے ہیں۔ سی آئی اے کی مصدق کے خلاف رجیم چینج آپریشن میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مصدق حکومت ایران کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ اس سے نجات ہی ایران کے مستقبل کی تابناکی کا ذریعہ ہے۔ خود ”اندھیرے” میں ہیں دنیا کو دِکھاتے ہیں ”چراغ”! ڈاکٹر مصدق جو بھاری اکثریت سے وزیر اعظممنتخب ہوئے تھے، ایرانی ان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ مصدق نے ایران کی ترقی کا سفر شروع کیا تو امریکا کو مصدق اپنے لیے خطرہ محسوس ہوا۔ سی آئی اے نے خفیہ مشن شروع کیا۔ اس کے ایجنٹ کرمٹ روز ویلٹ نے ایران میں لینڈ کیا، دنیا نے دیکھا کہ وہی مصدق جو آنکھوں کا تارا تھے گلیوں میں ذلیل ہوئے۔ ”مرگ بر مصدق” کے نعرے لگے اور چھ ماہ میں امریکا نے ”عوامی حمایت” سے ان کا اقتدار انجام کو پہنچا دیا۔
کرمٹ نے امریکی صدر آئزن ہاور کو وائٹ ہاوس میں اپنی کامیابی کی داستان سناتے ہوئے برملا اس کا اظہار کیا کہ ”ہمارے پاس چاہے کتنے ہی وسائل ہوں، ہم صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر صورتحال پیدا نہیں کر سکتے۔ مصدق کو کرمٹ نے نہیں خود ایرانیوں نے مارا۔ اگر ایرانی نہ چاہتے تو کرمٹ کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔” یہی ”کرمٹ فارمولا” آج بھی امریکن ڈپلومیٹس کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ایرانی عوام تبدیلی امریکا نہیں اپنے زور بازو پر چاہتے ہیں۔ اگر پھر بھی طاقتیں بضد ہوں تو ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ شام، عراق، لبنان اور لیبیا کی طرح اپنی کٹھ پتلیاں تخت پر بٹھا دی جائیں۔ اس عمل کے لیے بھی سخت مشقت کرنا پڑے گی کیونکہ ایرانیوں کی امریکا اسرائیل سے نفرت ان کے جنیاتی کوڈ کا حصہ ہے۔ وہ ایسی کسی حکومت، حاکم یا نظام کو قبول نہیں کریں گے جو امریکی تحفہ ہو۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاسداران انقلاب اور انقلابی رجیم نے ایرانی عوام کو چھیالیس سالوں سے کچھ نہیں دیا۔ تہران، شیراز اور اصفہان کے عوام ناراض ہیں، بہرحال ایران میں وہی تبدیلی پائیدار ثابت ہوگی جو حقیقی عوامی حمایت سے آئے۔ سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے فرزند رضا پہلوی اب امریکی خواہشات کا محور ہیں۔ حال ہی میں اپنی اہلیہ سمیت اسرائیل میں نیتن یاہو سے ملے جبکہ ان کی بیٹی نے ایک یہودی نژاد شخص سے شادی بھی کی ہے۔ رضا شاہ پہلوی کے دور کا ہر فعل مغرب سے بھی چند قدم آگے تھا۔ اس دور میں دنیا کی پہلی ہم جنس پرستوں کی شادی تہران میں ہوئی جس میں ملکہ فرح دیبا نے خود شرکت کی جبکہ شراب، ڈانس کلب، جوا خانے اور کسینو وغیرہ عام تھے۔ برطانوی ایما پر ایران کی قاچار کمزور حکومت کا تختہ الٹا کر رضا خان بادشاہ بنے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور روس سے تیل معاہدوں کی خلاف ورزی اور جرمنی سے قربت پر ایران پر قبضہ کر کے رضا خان کو جبری جلا وطن کیا گیا اور اس کے 23 سالہ بیٹے رضا شاہ پہلوی کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے دور میں برطانوی اور امریکی شہریوں کو سفارتی استثناء حاصل تھا جبکہ بنیادی انسانی حقوق ختم اور ”ساواک” (ایرانی خفیہ ایجنسی ) کے ذریعے مخالفین پر ظلم و ستم ڈھایا جاتا۔
عورتوں کی مادر پدر آزادی، لادینیت کی ترویج اور زرعی اصلاحات سے کسانوں کی تباہی خمینی انقلاب کی وجوہات بنیں۔ 16 جنوری 1979 کو بادشاہ حکومت کی باگ ڈور وزیراعظم شاہ پور بختیار کے حوالے کر کے ملک سے فرار ہو گیا۔ یکم فروری 1979 کو عوامی حمایت سے خمینی بر سر اقتدار آئے۔ مختصراً 2022 میں زیرِ زمین تحریک نے ”مہسا امینی” کی موت پر زور پکڑا مگر ایران میں تبدیلی کے لیے پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ 13 جون 2025 کے حملے کی اسرائیل نے فخریہ ویڈیو جاری کی کہ ان کا ایران میں ڈرون اڈا تھا جہاں سے کامیاب حملہ کیا گیا۔ ایران میں ایسی جگہ حاصل کرنا ہندوستانی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملوں پر ”مودی” کا منفی رویہ، ہندوستانی میڈیا کی طعن و تشنیع ایران کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، انہیں ہندوستان سے تعلقات کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ غالب گمان ہے کہ ایران میں دہشت گردی کے واقعات میں آستین کا یہ سانپ ملوث ہو۔ یہود و ہنود ہم قافیہ ہی نہیں بلکہ ان کا قارورہ بھی ملتا ہے۔ رہ گیا امریکا تو وہ بھی ان کی سرپرستی کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ فارسی میں کہتے ہیں ”جبل گردد جبلت نہ گردد” پہاڑ ہل سکتا ہے مگر سرشت نہیں بدلتی۔ اسرائیل انڈیا اور امریکا کی ”مثلث” کا مسلمانوں کے خلاف ایکا اس کی واضح مثال ہے۔