تحریر: عبد الرحمن، فیصل آباد
بنی نوع انسان کا ہمیشہ سے یہی المیہ رہا ہے کہ وہ کبھی نسل کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر اپنے جیسے انسانوں کا خون بہاکر تسکین حاصل کرتا رہتا ہے۔
ماضی میں جنگوں سے نسلیں تباہ ہوگئیں اور کبھی ملکوں کے ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے مگر خون کی پیاس نہ بجھ سکی۔ پچھلی صدی میں دو بڑی جنگوں کی تباہی ابھی بھولی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں محدود جنگیں بھی پچھلی صدی کے ریکارڈ پر ہیں۔ رواں صدی میں بھی نام نہاد مہذب اقوام نے کبھی افغانستان کو نشانہ بنایا اور کبھی عراق پر ہاتھ صاف کیا۔ لیبیا سمیت کئی ممالک کی حکومتیں تبدیل کی گئیں۔
اس تمہید کے بعد آتے ہیں ایران اسرائیلی کشیدگی کی طرف، جس کی وجہ سے ہمارا خطہ پھر سے متاثر ہونے کو ہے۔ اسرائیل نے سات اکتوبر23 سے اب تک ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، غزہ عملا کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے اور دنیا کو امن کا درس دینے والی اقوام متحدہ ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ بہت سے طبقات پاکستان کو تنقید کا نشانہ بھی بنارہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ہم نے ہمیشہ ایران کا ساتھ دیا ہے، ابھی بھی عالمی سطح پر پاکستان ایران کی حمایت کررہا ہے مگر اپنی جنگ لڑنی خود ہی پڑتی ہے۔ ہماری افواج نے بھی متعدد جنگیں بغیر کسی کی حمایت کے لڑی ہیں۔ مغرب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہم ایٹمی طاقت بنے ہیں۔ اوپر سے ایران کا مسئلہ عرب ممالک کے ساتھ بھی ہے جس کی وجہ سے بھی پاکستان کو محتاط رہنا پڑتا ہے، تاہم اگر جنگ زیادہ لمبی چلتی ہے تو پھر بہت سے ممالک کا غیر جانبدار رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ بس یہیں پر ہی اختتام ہو جائے۔ ورنہ ہمارا خطہ پھر سے بدامنی کا شکار بھی ہوگا اور غیر سرکاری عناصر بھی طاقت پکڑیں گے۔
پاکستان میں اہل تشیع ہیں تو کم مگر وہ ایران کا ساتھ دینے کے حوالے سے پرجوش ہیں اور خامنائی کی جہاد کی بات کو سنجیدہ لے کر لڑنے کے لیے بھی جا سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان پر عالمی دباؤ بھی بڑھے گا۔ پھر ہمسایہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بارڈر پر غیر ضروری دباؤ بھی پڑے گا۔ پاکستان کو عالمی سطح پر اس حوالے سے آواز اور زیادہ بلند کرنی چاہیے۔
دوسری جانب جنگیں کچھ ممالک یا اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے لیے منافع بخش بھی ہوتی ہیں۔ اکلوتی سپر پاور امریکہ میں اس وقت جو حکومت ہے وہ بظاہر تو جنگ مخالف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنا امیج ایک صلح جو حکمران کا رکھنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے روس یوکرین جنگ بھی رکوانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ پاکستان انڈیا چار دنوں کی جنگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکن صدر نے خود کو اسرائیل کی موجودہ جنگ سے بھی الگ رکھا ہے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کو لگام دینے کی کوشش ہوتی ہے یا پھر اسے خطے کی تھانیداری دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
روس اور چین کا ردعمل ہمیشہ کی طرح نپا تلا رہا ہے مگر جنگ طویل ہونے کی صورت میں ان کا ردعمل تبدیل بھی ہو سکتا ہے اور پھر اس کی چنگاریاں بھی دور تک جائیں گی۔ ابھی جنگ کا روکا جانا ہی سب کے مفاد میں ہے ورنہ یہ جنگ بہت کچھ تبدیل کرسکتی ہے، جو ناگوار بھی ہوگا۔