عرب لیگ کی قیادت کا حصول، مصر اور خلیجی ممالک کے درمیان کھینچا تانی شروع ہوگئی

رپورٹ: علی ہلال
عرب ممالک کی علاقائی تنظیم عرب لیگ کی قیادت اور ہیڈ کواٹر کا معاملہ آج کل مصر اور خلیجی ممالک کے درمیان ایک اہم مسئلے کی شکل میں زیر بحث ہے۔
بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس تنازع کی وجہ مصر اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات میں آنے والی سرد مہری کا نتیجہ ہے تاہم مصر اور خلیجی میڈیا اس حوالے سے محتاط ہے۔رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک کی خواہش ہے کہ عرب لیگ کی سیکٹری شپ پر اب مزید مصر کا تسلط ختم ہونا چاہیے اور خلیجی ممالک کے پاس یہ عہدہ آنا چاہیے۔ اسی طرح عرب لیگ کے ہیڈ کوارٹر کو بھی قاہرہ سے خلیجی ممالک منتقل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔
یہ معاملہ رواں ہفتے اُس وقت زیر بحث آیا جب سعودی عرب کے سینئر صحافی نے مطالبہ کیا کہ عرب ممالک کی علاقائی تنظیم عرب لیگ کی قیادت (سیکٹری جنرل شپ) پر مصر کی اجارہ داری ختم کی جائے اور اس کی جگہ سعودی عرب کے کسی وزیر کو عرب لیگ کا سیکٹری جنرل بنا کر عرب لیگ کے ہیڈکوارٹر کو سعودی عرب منتقل کیا جائے جس پر عرب میڈیا میں بڑی بحث شروع ہوئی ہے۔ عرب اُمور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر کو اس منصب کے لئے موزوں خیال کیا جاتا ہے اور سعودی عرب کے فیصلہ ساز اداروں میں اس حوالے سے غور و خوض جاری ہے۔
بائیس مارچ 1945ء کو بننے والی عرب لیگ کا ہیڈکوارٹر قاہرہ میں ہی واقع ہے اور اس کی قیادت یعنی سیکرٹری جنرل مصری ہوتا ہے جس کے لئے عمومی طور پر مصر کے کسی سابق وزیر خارجہ کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔ 1945ء میں عرب لیگ کے بانی ممالک میں مصر،سعودی عرب، یمن کی سابق متوکلیہ سلطنت، اردن، فلسطین ،عراق،لبنان اور شام شامل ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ عرب لیگ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھتے ہوئے 22 تک پہنچ گئی ہے۔
عرب لیگ کا رقبہ عالمی سطح پر روس کے بعد دوسرا بڑا رقبہ ہے۔ عرب لیگ کے رکن ممالک کی آبادی چین،بھارت اور یورپی اتحاد کے بعد چوتھی بڑی آبادی ہے۔ عرب لیگ کی تاسیس کے دوران مصر ایک مضبوط طاقتور ملک تھا جہاں بادشاہت قائم تھی۔ عرب لیگ کی قیادت1945ء سے ہی مصر کے پاس رہی ہے۔ 1979ء میں عرب لیگ کا ہیڈکوارٹر اس وقت عرب ممالک کے احتجاج پر تیونس منتقل کیا گیا جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا۔ 1990ء تک عرب لیگ کا ہیڈکوارٹر مصر کے بجائے تیونس میں رہا جبکہ تیونسی راہنما شاذلی القلیبی اس دوران عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری رہے۔
یہ عرب لیگ کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب اس علاقائی تنظیم کی قیادت کسی غیرمصری کے پاس رہی ہے۔ 1990ء میں مصر عرب ممالک کو راضی کرنے میں کامیاب ہوا اور عرب لیگ کا ہیڈکوارٹر دوبارہ قاہرہ منتقل ہوا۔ عرب لیگ کی قیادت اور ہیڈ کوارٹر کی منتقلی کا معاملہ اب خاصا سنجیدہ ہوگیا ہے۔ مصر میں الاہرام پولیٹیکل اینڈ اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ عماد جاد نے بھی دو روز قبل کہاہے کہ عرب لیگ کے ہیڈکوارٹر کو سعودی عرب منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ مصری باشندہ ہونے کے ناطے ان کے اس بیان نے غیرمعمولی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
انہوں نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کسی سعودی شخصیت کو سونپنے کی تجویز دی ہے۔ اس کے ردعمل میں مصر کے ایک عالم دین اور عمرمکرم مسجد کے خطیب ڈاکٹر مظہر شاہین نے کہا ہے کہ یہ تشویشناک معاملہ ہے۔ عرب لیگ کی قیادت اور سیکرٹری جنرل شپ کی مصر سے منتقلی سے مصر کی عرب شناخت ختم ہوجائے گی اور کچھ عالمی قوتیں مصر کو عرب ممالک سے کاٹ کر الگ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ عرب لیگ کی قیادت کی منتقلی سے یہ منصوبہ مضبوط ہوسکتا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق قطر بھی عرب لیگ کی قیادت کی مصر سے منتقلی کا حامی ہے۔ عرب لیگ پر گزشتہ کافی عرصے سے شدید تنقید ہورہی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیی عربوں کی نسل کشی پر عرب لیگ تین ماہ تک کوئی اجلاس تک بلانے میں ناکام رہی ہے۔ غزہ جنگ پر آج تک عرب لیگ کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔ اس سے قبل 15 اپریل 2023ءسے سوڈان میں خانہ جنگی شروع ہے جو اب تک جاری ہے لیکن عرب لیگ کا اس میں کردار کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ لیبیا کی صورتحال 2011ء سے خراب ہے۔ الجزائر اور مراکش کے درمیان سفارتی بائیکاٹ ہے لیکن عرب لیگ مکمل خاموش ہے۔
سال 2017ء میں قطر اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات منقطع ہوئے لیکن عرب لیگ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ عرب لیگ کے حالیہ جنرل سیکرٹری احمد ابوالغیط ہیں، جو حسنی مبارک کے دور میں سات برس وزیر خارجہ رہے ہیں۔ انہیں مارچ 2016ء میں عرب لیگ کا سیکٹری جنرل بنایا تھا اور اب وہ دوسری مرتبہ اس منصب پر فائز ہیں۔ ستمبر میں ان کی مدت پوری ہورہی ہے جس کے بعد ان کی جگہ دوسرے سیکرٹری جنرل کے لیے مصر نے اپنے سابق وزیر اعظم مصطفی مدبولی کو نامزد کیا ہے، تاہم اس دوران خلیجی ممالک کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبے نے معاملے کو دوسرا رخ دے دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک عرب لیگ میں کچھ تنظیمی تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں جس میں سٹاف میں کمی، غیرضروری اخراجات کی کٹوتی اور اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل کے عہدے کا اضافہ شامل ہیں۔ عرب لیگ شاہانہ تنخواہوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ عرب ممالک میں عام سفارتی اتاشی کی ماہانہ سیلری 3600 ڈالر کے لیکن اس کے مقابلے میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کے مشیر کی تنخوا 8500 ڈالر ہے جبکہ سیکرٹری جنرل کے کے دومعاونین ماہانہ گیارہ گیارہ ہزار ڈالر تنخواہیں لیتے ہیں۔ عرب لیگ کے سینئر ذمہ داروں کو پینشن اور ریٹائرمنٹ فنڈ بھی ملتا ہے جو 6 لاکھ ڈالر تک ہے۔
عرب لیگ میں کنٹریکٹرز کی شکل میں 400 ملازمین ہیں جنہیں تنخواہوں کی شکل میں سالانہ 50 لاکھ ڈالر ملتے ہیں۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کی ماہانہ تنخواہ 50 ہزار ڈالر ہے جبکہ انہیں ماہانہ الاونسز ملتے ہیں جو دس ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ عرب لیگ کا سیکرٹری جنرل پانچ برس کے لیے منتخب ہوتاہے اور انہیں عموماً دوسری مدت کے لئے بھی چناجاتا ہے۔ فراغت کے وقت منصب پر رہنے والے ہر ایک سال کے 10 لاکھ ڈالر ملتے ہیں جس سے یہ رقم دس ملین ڈالر تک جاپہنچتی ہے۔ ان بھاری اور پرکشش مراعات کے باعث عرب لیگ کو عالمی سطح پر زیادہ تنخواہوں والی تنظیموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے لیکن دوسری جانب اس کے کردار پر بہت سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مصر سے عرب لیگ کی قیادت لینے کی باتیں ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب گزشتہ ہفتے مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے ایرانی وزیرخارجہ کا استقبال کیاہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کو مصری دورے کے موقع پر غیرمعمولی پروٹوکول دیا گیاہے۔ انہوں نے تاریخی بازار خان خلیلی میں شاپنگ بھی کی اور قاہرہ کی مسجد الحسین میں نماز بھی ادا کی۔ یہ مصر اور ایران کے 46 سالہ بائیکاٹ کے بعد دوسرا بڑا رابطہ ہے۔ اس سے قبل 2013ء میں سابق مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے دور میں ایرانی صدر نے قاہرہ کا دورہ کیا تھا جسے خلیجی ممالک نے علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور بعدازاں ان کی حکومت کے خلاف السیسی کی فوجی بغاوت کو تعاون بھی فراہم کیا تھا۔ السیسی آج کل ایک مرتبہ پھر معتوب ہیں جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ السیسی اس وقت اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات پر بھی ناخوش نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بغداد میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں انہوں نے غزہ کے معاملے پر خاصی سخت باتیں کی تھیں۔