تحریر: رضی الدین سید
کم عمر بچی ثنا یوسف کا قتل سب کو بہت زیادہ دکھ دے گیا۔ غم ہی ایسا ہے کہ ہر ایک کی آنکھ نم ہوگئی۔ ایک چنگاری تھی جو ابھی چمکی اور بجھ گئی۔ کسی کو شک نہیں کہ یہ ایک قتل ناحق ہے اور کسی بھی ایسے واقعے میں مظلوم کو الزام دینا قرین انصاف نہیں ہے تاہم ہر حادثے اور سانحے کا ایک سبق ضرور ہوتا ہے جس سے عبرت حاصل کر کے آیندہ ایسے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف ایک ہی حادثہ نہیں ہے بلکہ ہر آئے دن ایسی دلدوز خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔
اس ملک میں خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، وہ سب پر عیاں ہے۔ ایسی بولڈ اور خود پر بے حد بھروسہ رکھنے والی لڑکیوں کے قتل کے سانحات سب کے سامنے اور علم میں ہیں۔ اپنے حدود سے باہر نکل کر شوبز وغیرہ کی دنیا میں بلندی حاصل کرنے کی تمنا پالنے والی لڑکیاں یا تو قتل ہوئی ہیں یا ایک کے بعد ایک سے شادیاں کر کے نفسیاتی و ہسٹیریائی مریض بنی ہیں۔ اس لیے اس مظلوم ٹک ٹاکر سے ہمدردی کرتے ہوئے بھی ہم اس کے والدین کو الزام دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سبق سیکھنا اور سخت خوف زدہ ہونا چاہیے اُن لڑکیوں کو جو اَب بھی اس میدان میں ہیں یا جو اَب داخل ہونا چاہتی ہیں۔ ایسا ہر دردناک قتل آج کی باہمت و بولڈ لڑکیوں اور ان کے والدین کو ہوشیار و خبردار کا پیغام دے کر جا رہا ہے۔ لبرلز یا آزاد خیال لوگوں کے نزدیک صنفِ نازک کے لئے حقوق کے نام پر بس ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ لڑکیوں کو کھینچ تان کے بازاری ماحول میں لے آئیں اور جن حقوق کے باعث وہ جان سے جاتی ہیں، انہی حقوق کی جانب انہیں کھینچیں۔ پھر سانحے کے بعد جب ہر جانب سے شور و غوغا بلند ہو کہ نوجوان لڑکیوں کو ان راستوں میں نہیں جانا چاہیے اور نہ انہیں بولڈنس دکھانی چاہیے، انہیں اپنا آپ پہچاننا چاہیے، تو آزاد خیال حضرات فوراً ہی مذہبی لوگوں کو نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ حالانکہ کوئی ضروری نہیں کہ ایسے احتیاطی تبصرے محض مذہبی افراد ہی دے رہے ہوں۔ یہ تو ایک کامن سینس کا مسئلہ ہے۔ سو جس کے پاس کامن سینس ہوگا وہ ضرور ہی ان باتوں پر دھیان دے گا۔
یہ بات طے ہے کہ لڑکیاں جس قدر بھی باہر آئیں گی، بنیں گی، سنوریں گی، خود کو بہت عقلمند گردانیں گی اور مردوں سے بلند یا ہم پلہ قرار دیں گی، ان کی تباہی کا خدشہ اسی قدر زیادہ ہوگا۔ بے شک یہاں کسی کو وہی ”ملا” کی پھبتی بھی کس دی جائے لیکن ہماری خواتین کی بے آبروئی اور قتل کی حالیہ تاریخ راقم کے اس بیان کی مکمل تصدیق کرتی ہے۔ جو عورت بھی سوشل میڈیا یا عام زندگی میں مردوں سے بے تکلفی سے بات کرے انہیں اپنی تصویریں بھیجے، ان کے ساتھ گھومے پھرے، رقص کرے، شوٹنگس پہ جائے، مرد دوستوں کے گھر رات گزارے، مل کر ٹک ٹاکس بنائے، عریاں لباس پہنے اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر ٹھٹھے لگائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس نے لڑکوں کے سامنے خود کو ایک شکار کے طور پر پیش کر دیا ہے۔ ہمت دلائی ہے کہ بے شک وہ اس سے مزید بے تکلف ہولیا کریں۔ اگرکوئی لڑکی یہ کہے کہ ”میں کوئی قدیم خیالات کی مالک تھوڑی ہوں” اور ”اس میں تھوڑا بہت تو چلتا ہی ہے”، تو کون سا لڑکا ہوگا جو اسے اس کے خیالات کی داد نہ دے اور اس کے مزید قریب نہ ہو؟ کون نہیں جانتا کہ لڑکے بے تکلف تب ہی ہوتے ہیں جب لڑکیاں خود انہیں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
لڑکیوں کی آزادی کی کچھ حدود ہوتی ہیں جنہیں توڑنا خود ان کے لیے تباہی کا سبب بنتا ہے۔ پارٹی کی جان بننا، ٹک ٹاک کی دیوانی ہونا، رات دیر سے گھر آنا، نشہ کرنا اور تنگ، مختصر اور چست لباس پہننا، بھلا اس کے بعد خطروں کو دعوت دینے میں لڑکیوں نے باقی چھوڑا ہی کیا ہے؟ معاشرے میں ہر ایک فرد کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ماسی کی حدود، شاگرد کی حدود، ملازم کی حدود اور افسر کی حدود۔ اسی طرح لڑکیوں کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اب جو اِن حدود کو توڑے گا منہ کی کھائے گا۔ پھر جب کوئی دردناک سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس بیچاری کی تمام ہم خیال و ہم نوالہ خواتین و حضرات سارا الزام مردوں پر ڈال دینے میں لمحوں کی بھی دیر نہیں لگاتے اور نہیں دیکھتے کہ یہ لڑکی کیا کر رہی تھی؟ کن کن لڑکوں سے اس کی بے تکلفی تھی؟ اور کہاں کہاں وہ دن اور رات گھومی پھری تھی؟ آج کے پُرخطر اور شکاری دور میں کیا یہ بات بہت بری ہے کہ لڑکیوں کو اپنی حیا، آبرو اور جان کی خود حفاظت کرنے کی تاکید کی جائے؟ اگر اس خطرے پر انہیں پختہ یقین ہو جائے کہ یہاں شاید ہی کوئی مرد ایسا ہے جس پر وہ آنکھ بند کر کے اعتبار کر سکیں تو بہت سارے الم ناک حادثے شاید وقوع پذیر ہی نہ ہو سکیں۔