اسلام میں حج کا تصور اور نظم

الشریعہ اکادمی گوجرانولہ میں حج بیت اللہ کے موضوع پر ایک نشست سے خطاب کا خلاصہ نذر قارئین ہے:
بعد الحمد والصلوٰة۔ ذی الحج کا مہینہ ہمارے اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مہینے میں حج اور قربانی کی دو بڑی عبادتیں ہمیں عطا فرمائی ہیں۔ حج کے لیے دنیا بھر سے مسلمان حرمین شریفین میں جمع ہوتے ہیں اور 8ذی الحجہ سے لے کر 13ذی الحجہ تک حج ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ حج سے پہلے یا بعد میں جناب نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضری دیتے ہیں، مسجد نبوی میں نمازیں پڑھتے ہیں اور برکات و سعادتیں حاصل کر کے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس سال اندازہ کیا جا رہا ہے کہ تقریباً پچیس لاکھ مسلمان حج ادا کریں گے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ حج کے مناسک کے لیے دنیا کے ہر کونے سے مسلمان وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی وحدت کی علامت بھی ہے، کعبہ کی مرکزیت کی علامت بھی ہے اور اِس بات کی علامت بھی ہے کہ مسلمانوں میں آج بھی تمام تر رکاوٹوں اور کمزوریوں کے باوجود دین اسلام کا جذبہ بیدار ہے اور فتنوں کے اِس دور میں بھی اللہ سے، دین سے، بیت اللہ سے، مسجد نبوی سے اور حضور کی ذات گرامی سے تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہے۔ اِس کا اِظہار حرمین شریفین میں ہر سال پورے جوش و خروش کے ساتھ رمضان المبارک اور پھر خاص طور پر حج کے دنوں میں ہوتا ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ سارا سال تسلسل کے ساتھ کسی وقفے کے بغیر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

میں آج کی اِس نشست میں حج کے نظام کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہوں گا۔ جاہلیت کے زمانے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے بلکہ آپ کی ہجرت کے بعد بھی حج ہوتا تھا۔ فتح مکہ سے پہلے مؤمنین، مؤحدین اور مشرکین سب اپنے اپنے ذوق کے مطابق حج کرتے تھے لیکن جاہلیت کے دور میں حج کا جو تسلسل چلا آرہا تھا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں چند اصلاحات اور تبدیلیاں فرمائیں۔ میں اْن تبدیلیوں اور اصلاحات کا کچھ تذکرہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔

فتح مکہ 8ہجری کے سال ہوئی۔ فتح مکہ کے بعد پہلا حج 9ہجری میں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 9ہجری کا حج ادا نہیں فرمایا بلکہ آپ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ آپ نے حضرت صدیق اکبر کی اِمارت میں صحابہ کرام کو ادائی حج کے لیے بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 9ہجری کا سال اصلاحات و تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا۔ آپ نے حضرت صدیق اکبر کے ذریعے 9ہجری کے حج کے موقع پر بہت سے اعلانات کروائے۔ یہ اعلانات حج کے نظام کی تطہیر، دیگر قوموں کے ساتھ معاہدات، جاہلی رسومات پر پابندی اور دیگر دینی و انتظامی امور کے متعلق تھے۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ اگلے سال حضور حج کے لیے تشریف لائیں گے، چنانچہ 9ہجری کا سال آپ نے اگلے سال حج کے لیے ماحول کی صفائی میں صرف کیا۔ گویا یوں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج پر اپنے تشریف لے جانے سے پہلے حج کے پورے نظام کی تطہیر فرمائی اور حج کو اللہ اور مسلمانوں کے لیے خالص کر دیا۔ پھر حضور نے 10ہجری کا حج ادا کیا جسے حجة الوداع کہتے ہیں۔

پہلی تبدیلی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمائی کہ فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ، حرم پاک اور مکہ مکرمہ کو بتوں سے صاف کر دیا۔ فتح مکہ سے پہلے یہ جگہیں بتوں کی آماجگاہ تھیں اور وہاں سینکڑوں بت نصب تھے۔ مسجد حرام میں بھی، بیت اللہ کے اندر بھی اور حرم کے ماحول میں بھی۔ لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے، صفا و مروہ کی بھی کرتے تھے، اور بتوں کے سامنے حاضری بھی دیتے تھے۔ حج کے دنوں میں یہ عبادت اور شرک کے کام ساتھ ساتھ ہی ہوتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے نظام میں پہلی تبدیلی یا اصلاح یہ فرمائی کہ فتح مکہ کے بعد بیت اللہ، مسجد حرام، حرم کی حدود، بلکہ پورے جزیرة العرب کو بتوں سے پاک کر دیا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی کہ بیت اللہ اور حرم کا ماحول بتوں سے پاک ہوا۔ اللہ کی عبادت کے ساتھ اور اللہ کے گھر کی حاضری کے ساتھ جو بتوں کی شرکت ہوتی تھی وہ ختم ہو گئی۔ اِس طرح حج خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہوگیا۔

اسی طرح حرم کی حدود میں بت پرستی کے ساتھ ساتھ مذہبی حوالے سے جوا اور لاٹری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ لوگ مختلف پہلوؤں سے وہاں بتوں کے ذریعے، بتوں کی موجودی اور سائے میں لاٹری اور جوا کھیلتے تھے۔ اس کی مختلف شکلیں تاریخ اور احادیث میں مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب بیت اللہ کے بت توڑے تو اْن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے بت بھی تھے۔ بت اس طریقے سے بنائے گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے گئے تھے۔ جناب نبی کریم نے یہ دیکھ کر فرمایا ”قاتلھم اللہ” اللہ ان کا بیڑا غرق کرے کہ مشرکین نے ان بزرگوں کے ہاتھوں میں بھی تیر پکڑا دیے، حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ ان بزرگوں نے زندگی میں کبھی لاٹری یا جوا نہیں کھیلا، چنانچہ جس طرح حضور نے وہاں سے بتوں کو صاف کیا اسی طرح یہ لاٹری، جوا اور اَزلام وغیرہ کا سلسلہ بھی حضور نے وہاں سے ختم فرما دیا۔ یہ حج کے نظام میں دوسری بڑی اصلاح تھی جو رسول اللہ کے ہاتھوں سر انجام پائی۔

تیسرے نمبر پر جناب نبی کریم نے حج کے نظام میں جو تبدیلی کی وہ یہ تھی کہ حج کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ اس سے پہلے کسی مذہب یا قومیت کی قید نہیں تھی اور حج کے لیے کوئی بھی آسکتا تھا۔ موحد و مؤمن، مشرک و بت پرست، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو سب آتے تھے اور اپنے اپنے طریقے پر حج ادا کرتے تھے لیکن جناب نبی کریم نے قرآن مجید کے حوالے سے اعلان فرما دیا کہ ”یا ایہا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا” (التوبہ 28) اے ایمان والو! مشرک تو ناپاک ہیں، اس لیے اِس سال کے بعد مسجد حرام کے نزدیک نہ آنے پائیں۔

فتح مکہ سے پہلے سب حج کے لیے آتے تھے، حضور نے اعلان فرما دیا کہ اب کے بعد کوئی غیر مسلم حج کے لیے نہیں آئے گا۔ حج مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے، مسلمانوں کی عبادت ہے، اس لیے یہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ تیسری بڑی اصلاح تھی جو جناب نبی کریم نے حج کے نظام میں فرمائی۔

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوتھی تبدیلی یہ فرمائی کہ ننگے طواف کی جاہلی رسم کا خاتمہ کر دیا۔ جاہلیت کے زمانے میں بہت سے قبائل کے لوگ حج کے لیے آتے تھے تو وہ ننگے طواف کرتے تھے۔ مرد تو بالکل ننگے ہوتے تھے، کوئی ایک دھاگہ بھی ان کے جسم پر نہیں ہوتا تھا جبکہ عورتوں نے پہلوانوں کی طرح کی ایک لنگوٹی سی باندھی ہوتی تھی۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ جب ہم اللہ کی طرف سے دنیا میں آئے تھے تو ننگے آئے تھے، اس لیے ہم اللہ کے گھر بھی اسی حالت میں حاضری دیں گے۔ قریش والے حمس کہلاتے تھے یعنی برتر لوگ جنہیں آج کی اصطلاح میں وی آئی پی کہہ لیں۔ یہ بڑے، برگزیدہ اور چْنے ہوئے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ اس زمانے میں رواج یہ بن گیا تھا کہ حج کے لیے کسی آنے والے کو قریش والے اگر کوئی لباس دے دیتے تو وہ لباس تبرک سمجھ کر پہنا جاتا تھا۔ لیکن قریش والے اگر کسی مرد یا عورت کو لباس نہ دیتے تو وہ ننگے ہی طواف کرتے تھے۔ چنانچہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرما دی اور حج کا لباس متعین کر دیا کہ مرد دو چادروں میں آئیں گے جبکہ عورتیں مکمل لباس میں آئیں گی۔ کوئی مرد یا عورت ننگا طواف نہیں کر سکے گا۔ یہ ایک بڑی اصلاح حج کے نظام میں حضورۖ نے فرمائی۔ چنانچہ حج کے موقع پر ایک عجیب منظر ہوتا ہے کہ کوئی کسی ملک کا صدر ہو یا کلرک، مالک ہو یا نوکر، تاجر ہو یا مزدور، پیر ہو یا مرید سب کے جسموں پر دو چادریں ہوتی ہیں۔ کسی مرد کے لباس سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شخص دنیا کے اعتبار سے کس سطح یا گریڈ کا آدمی ہے، سب برابر نظر آتے ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں یہ تبدیلی فرمائی کہ ننگے طواف کو ممنوع قرار دے دیا اور اعلان فرما دیا کہ آئندہ کوئی بھی ننگا مرد یا ننگی عورت طواف کے لیے نہیں آئیں گے۔ (جاری ہے)