فلسطینیوں کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم پر ایٹم بم پھینک دو، تاکہ ہمیں اس اذیت ناک زندگی سے نجات ملے!
غزہ میں موت بہت بڑی نعمت ہے۔ قبر والوں کی قسمت پر ناز کیا جاتا ہے کہ وہ جنت کے میوے کھا رہے ہوں گے اور ہم ایک نوالے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کاش ہم بھی شہید ہو چکے ہو تے۔ غزہ کے گلی کوچوں میں موت کا عفریت رقص کناں ہے۔ غزہ میں زندہ وہ نہیں جو سانس لے رہا ہے بلکہ وہ ہے جس کی لاش دفنانے کی جگہ مل گئی۔ زندوں کے دو ہی مشاغل ہیں؛ پیاروں کی تدفین یا جسم و جاں کے رشتے کی برقراری کے لیے نوالے کے حصول کی تگ ودو۔ 19مارچ 2025ء سے محصور غزہ میں آب و دانہ، پانی یا دوا کی بوتل کی رسائی نہیں۔ 65ہزار بچے غذائی قلت سے موت کی دہلیز پر ہیں
سامنا ہم تمہارا کریں کس طرح
غفلتوں میں پڑے ساحلوں پر کھڑے
اپنی آنکھوں میں تاب نظارہ کہاں
موج طوفاں سے جس طرح تم لڑے
پوری دنیا اہل غزہ کی نسل کشی دیکھ رہی ہے مگر اس پر سکوت مرگ طاری ہے۔ دنیا کے لیے شاید یہ ایک تماشا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قراردادیں کاغذی پرز ے ہیں، مائیں پکار رہی ہیں اُمت مسلمہ کہاں ہے؟ عرب، امریکی صدر پر ڈالرز نچھاور کر رہے ہیں اور اہل غزہ ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ فلسطینی مرد ہی نہیں خواتین بھی بہادری اور صبر کا پیکر بنی ہوئی ہیں۔ یہ واقعہ اس کی زندہ مثال ہے۔آپریشن میں ماہرِ اطفال ڈاکٹر آلاء النجار کے نو بچے ان کے سامنے شہید ہو ئے، ایک بیٹا اور ان کے شوہر ڈاکٹر حمدی النجار بھی اپنے گھر پر حملے میں زخمی ہیں۔ اس ماں سے جب کہا گیا کہ ‘بچے چلے گئے ہیں تو انھوں نے جواب دیا: ‘وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں’۔ ان کی بہن سحر النجار کا کہنا ہے ڈاکٹر آلاء النجار اس وقت شدید صدمے کی حالت میں بہت ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن انھیں ڈر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ڈاکٹر آلاء ٹوٹ جائیں گی
ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
فلسطینیوں کے خاتمے کے لیے جاری نئے آپریشن ”عرباتِ جدعون” میں کتنی اور ”آلا ئیں” اپنے بچوں کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھ کو صبر واستقامت کی لازوال پیکر بنی ہوئی ہیں۔ عربات جدعون آپریشن کا مقصد بے خانماں فلسطینیوں کو دربدر کرکے غزہ پر قبضہ اور حماس سمیت دیگر مزاحمتی قوتوں کا مکمل صفایا ہے۔ جدعون، چھوٹے گروہ کے ساتھ دشمن کی بڑی فوج کو شکست دینے والا ایک یہودی رہنما تھا۔ یہ اس کے نام پر رکھا گیا آپریشن ہے جس کی تکمیل پر غزہ میں امریکی صہیونیوں کو بسانا، حماس کو شکست دینا اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرانا مقصود ہے۔ اسرائیلی فوج کے غزہ کے شمالی حصوں بالخصوص بیت لحیہ اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر شدید فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید اور بے شمار ملبے تلے دبے ہیں۔ نسل کشی کی مشین تیزی سے متحرک ہے۔ مقبوضہ علاقے میں مستقل موجودگی کے لیے اسرائیلی انتظامیہ اپنے مراکز قائم کرے گی تاکہ حماس کی واپسی کو روکا جا سکے۔ شمالی غزہ کے باسیوں کوجنوب کی طرف منتقلی کا حکم دیا گیا ہے۔
منصوبے کے تحت غزہ کے باشندوں کو رفح میں جمع کر کے صحرائے نقب کے قریب ”رامون” ہوائی اڈے کے قریب واقع پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کے تحت 10لاکھ فلسطینیوں کو مستقلاً لیبیا منتقل کیا جائے گا۔ اس کے لیے لیبیا کی قیادت سے بات کر لی گئی ہے۔ فلسطینیوں کی دوبارہ آباد کاری کے بدلے امریکا اربوں ڈالرز کی وہ رقم جاری کرے گا جو اُس نے 10سال سے منجمد کر رکھی ہے۔
ایک طرف غزہ میں قیامت کا یہ سماں ہے تو دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ پر عرب حکام کی طرف سے دولت کی بارش نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ غزہ کے قتل عام میں شریک ہونے کے باوجود ٹرمپ کو خلیج میں جو پذیرائی دی گئی اُس سے اسرائیل کو شہہ ملی اور ”عربات جدعون” شروع کیا گیا۔ انوسٹمنٹ کے نام پر ٹرمپ نے خلیجی ”اتحادیوں” سے ایک ہی بار (3 دن میں) 3320 ارب ڈالرز کی رقم جمع کر کے تاریخ رقم کر دی۔ 3320 ارب ڈالرز پاکستانی کرنسی میں تقریباً 925 کھرب روپے بنتے ہیں۔ تفصیل یہ ہے:
سعودی عرب: 720، قطر: 1200 اور یو اے ای:1400ارب ڈالرز یوں امریکا سے3320ارب ڈالرز کے انوسٹمنٹ معاہدے کیے ہیں۔ گویا امریکا کو عظیم بنانے کے لیے عربوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ معاشی ماہرین کے بقول اتنی بڑی رقم چار سال تک امریکی دفاعی بجٹ کے لیے کافی ہے۔ آکسفورڈ جیسی 200 یونیورسٹیاں 5 سال تک اس سے چلائی جا سکتی ہیں اور پاکستان جیسا ملک 48 برس تک اپنا پورا بجٹ اس رقم سے بنا سکتا ہے۔ خلیجی حکام کی دریادلی کی خبر آئی تو غزہ میں لقمہ تر کے حصول کے لیے لمبی قطار میں کھڑا ایک فلسطینی کہہ اٹھا کہ ہم ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں اور عر ب ٹرمپ کو ایک ایک ہزار ارب ڈالر دے رہے ہیں۔ ستاون ممالک کے مسلمان بھی یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ کیا مجال جو ان کے خورد و نوش میں کوئی کمی آئی ہو۔ بازاروں کی رونق دیدنی ہے، وزرا و امرا اے سی والے محلات اور دفتروں میں بیٹھے ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ صاحبان اقتدار و اختیار، وقت کے فرعون امریکا سے خائف ہیں بلکہ اس کی خدمت اور قدم بوسی کا شرف حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ شاید انہی کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
قرآن کریم ‘انما المؤمنون اخوة’۔ ”مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں” کا درس دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”مومنوں کی مثال آپس کے لطف و محبت میں ایسی ہے جیسے ایک جسم جب اس کے ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے”۔ یعنی جس طرح جسم کے تمام اعضا ایک دوسرے سے متصل درد میں شریک ہوتے ہیں، اسی طرح ہر مسلمان کو ایک دوسرے کے رنج و راحت میں شریک ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ آج اہل غزہ قبلۂ اول کی پاسبانی کے لیے تنہا اور پورا عالم اسلام خاموش تماشائی کیوں ہے؟ کیا اس معرکۂ حق و باطل میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنی صلاحیت و ہمت کے مطابق کام نہیں کرنا چاہیے؟ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ وہ اپنے ان محبوب بندوں کی ضرور مدد کرے گا جو اپنا تن من دھن سب کچھ قبلۂ اوّل پر نثار کررہے ہیں۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ صیہونیت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا اب نہیں تو کب؟ اہل عالم کو مسئلہ فلسطین کی حقانیت سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری کس نے نبھانی ہے؟ گویا دعا کے ساتھ ساتھ دوا کا اہتمام بھی ضروری ہے
غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
(نوابزادہ نصر اللہ خان)