زبان کسی بھی قوم کی پہچان، شعور، فکر اور تہذیب کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ محض الفاظ کے تبادلے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک قوم کی اجتماعی نفسیات، تاریخی ورثے، علمی رویے اور تہذیبی بالادستی کا آئینہ دار ہے۔ دنیا کی کوئی بھی زندہ، بیدار اور خودمختار قوم ایسی نہیں ہے جس نے تعلیم، قانون، سیاست اور تحقیق جیسے اہم اداروں میں اپنی قومی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کو ترجیح دی ہو۔ پاکستان جو کہ ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست ہے، اس کے وجود کی بنیاد بھی ایک الگ تہذیبی و لسانی شناخت پر رکھی گئی تھی لیکن قیامِ پاکستان کے پچھتر برس گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک اپنی قومی زبان ”اردو” کو اس کا آئینی اور عملی مقام نہیں دے سکے۔ اس کے برعکس آج بھی ہمارے تعلیمی اداروں، عدالتی نظام، دفتری زبان اور یہاں تک کہ قومی تقریبات میں بھی انگریزی کو بالادستی حاصل ہے۔ یہ روش محض زبان کا مسئلہ نہیں، بلکہ فکری خودی کے زوال کی علامت ہے۔
پاکستان کا آئین، دفعہ 251میں واضح طور پر لکھتا ہے کہ ”پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اور حکومت اسے پندرہ سال کے اندر اندر دفتری زبان کا درجہ دے گی۔” لیکن عملاً اس آئینی حکم کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ آج بھی ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے نصاب تک، انگریزی زبان کو علمی معیار اور ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ عام پاکستانی، جو اردو یا اپنی مادری زبان بولنے والا ہے، اس نظام میں اجنبی اور کم تر سمجھا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ایسے بچے جو انگریزی بولنے میں کمزور ہوں، انہیں ذہنی طور پر کمتر تصور کیا جاتا ہے، ان کا اعتماد توڑ دیا جاتا ہے اور تعلیم ان کے لیے مشکل اور بوجھ بن جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کے باوجود وہ طلبہ صرف زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
یونیسکو نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ: ”بچے اپنی مادری زبان میں بہتر سیکھتے ہیں؛ یہ ان کی فکری نشوونما، تخلیقی صلاحیت اور نئے تصورات سیکھنے کی استعداد کو بڑھاتی ہے۔” اس اصول کے پیشِ نظر، دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی قومی زبان کو ہی تعلیم کا بنیادی ذریعہ بنایا ہے۔ جاپان، چین، فرانس، جرمنی، ترکی، ایران، ان سب ممالک کی سائنسی ترقی، تعلیمی معیار اور صنعتی انقلاب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ زبان اپنی ہو تو قوم آگے بڑھتی ہے۔
مگر افسوس! پاکستان میں انگریزی کو ترقی، تعلیم اور عزت کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ قومی تقریبات، جیسے یومِ آزادی، یومِ اقبال، یومِ قائد یا سرکاری استقبالیے، ان میں اردو زبان کو ایک دکھاوے کی حد تک رکھا جاتا ہے، جب کہ اصل خطاب، ہدایات اور گفتگو انگریزی میں کی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ تقریبات عوام کے لیے نہیں بلکہ بین الاقوامی تاثر کے لیے منعقد کی جا رہی ہیں۔ کیا کوئی عام شہری جسے انگریزی نہیں آتی، ان تقاریب سے کچھ سیکھ پاتا ہے؟ کیا یہ تقریبات اُس قوم کے لیے ہیں جس کی 90فیصد آبادی اردو یا علاقائی زبان بولتی ہے؟ یہ صورت حال نہ صرف عوامی شعور کو مجروح کرتی ہے بلکہ طبقاتی تفریق کو مزید گہرا کرتی ہے۔ قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے کئی فوائد ہیں۔ یہ بچوں کے لیے تعلیم کو آسان بناتی ہے، انہیں اپنی تہذیب اور روایات سے جوڑے رکھتی ہے، اور تحقیق، تخلیق اور فہم کی راہیں کھولتی ہے۔ اردو زبان میں اعلیٰ سطح کی سائنسی اور فکری کتب کی دستیابی نئی نسل کو بین الاقوامی معیار پر لانے میں مدد دے سکتی ہے۔ اسی طرح عدالتوں اور دفاتر میں اردو کا استعمال عوام کو نظامِ عدل اور انتظامیہ سے جوڑنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس، انگریزی ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان کے طور پر صرف اشرافیہ کے لیے دروازے کھولتی ہے، جب کہ عام شہری اپنے ہی ملک میں اجنبی بن جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر فرمایا تھا:”پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی، اور کوئی دوسری زبان نہیں ہو سکتی۔ ”
لیکن آج ہم اپنے ہی قائد کے فرمان کو پسِ پشت ڈال کر ایک ایسی زبان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو نہ ہماری ہے، نہ ہماری ثقافت کی نمائندہ اور نہ ہی ہماری اکثریت کی سمجھ میں آنے والی۔ یہ روش نہ صرف علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ ہماری قومی وحدت، فکری خودمختاری اور تہذیبی شناخت کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اردو کو صرف ”قومی زبان” کہنے کے بجائے اسے اپنی تعلیم، عدلیہ، دفتری نظام اور قومی اظہار کی زبان بنائیں۔ اردو میں جدید علوم کی تدریس، سائنسی مضامین کا ترجمہ، اور ٹیکنالوجی کی اصطلاحات کی تدوین، یہ سب کام حکومتی سطح پر فوری طور پر شروع کیے جائیں۔ تعلیمی اداروں میں اردو کو عزت دی جائے، انگریزی کو صرف ایک غیرملکی زبان کے طور پر سکھایا جائے، مگر اسے معیارِ ذہانت یا ترقی کی علامت نہ بنایا جائے۔ اردو ہماری قوم کی علامت ہے۔ یہ ہمارے خوابوں، دعاؤں، شاعری، مزاحمت اور تاریخ کی زبان ہے۔ اگر ہم نے اسے مزید نظر انداز کیا تو ہم صرف ایک زبان نہیں، بلکہ اپنا شعور، اپنی فکر، اپنی خودی اور اپنی تہذیب بھی کھو دیں گے۔ ترقی کا سفر اپنی پہچان کے ساتھ ہی ممکن ہے، ورنہ ہم ہمیشہ دوسروں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے، نہ مکمل مغرب کے بن سکیں گے، نہ اپنی اصل کے باقی رہیں گے۔