دنیا کی عسکری تاریخ میں کچھ عہدے ایسے ہوتے ہیں جو صرف طاقت، قابلیت اور قیادت کی اعلیٰ ترین علامت نہیں ہوتے، بلکہ ان کے ساتھ تاریخ، عزت اور عظمت جڑی ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک اہم ترین فوجی عہدہ فیلڈ مارشل کا ہے۔فیلڈ مارشل ایک اعلیٰ ترین فوجی رینک ہے جو کسی ملک کی فوج میں غیرمعمولی خدمات، عسکری قیادت اور قومی دفاع میں بے مثال کردار ادا کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ تاحیات اعزازکی حیثیت رکھتا ہے۔
فیلڈ مارشل کا رینک سب سے پہلے 18ویں صدی میں برطانیہ نے متعارف کروایا۔ برطانوی بادشاہ کنگ جارج دوم نے 1736ء میں یہ رینک جنرل جان ولیس کو عطا کیا، جس کا مقصد انہیں دیگر جنرلز سے ممتاز کرنا اور ان کی جنگی خدمات کا اعتراف کرنا تھا۔اس کے بعد یہ رینک کئی دیگر یورپی ممالک میں رائج ہوا، جن میں جرمنی، فرانس، روس اور آسٹریا شامل ہیں۔ ہر ملک نے اپنے مخصوص معیارات اور خدمات کی بنیاد پر اس اعزاز کو دینے کی روایات اپنائیں۔بھارت میں دو افراد کو فیلڈ مارشل کا رینک دیا گیاہے۔ فیلڈ مارشل سم مانک شاکو 1973ء میں فیلڈ مارشل بنایا گیا۔ وہ 1971ء کی جنگ کے ہیرو مانے جاتے ہیں جس میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ آرمی چیف ایم کریاپّا کو 1986ء میں فیلڈ مارشل کا اعزاز دیا گیا۔ وہ بھارتی فوج کی تقسیم کے بعد ازسرنو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے باعث اس اعزاز کے مستحق قرار پائے۔
ایوب خان پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف تھے، 1951ء میں خود کو اس عہدے پر فائزکیا۔ ان کے بعد اب ملکی سلامتی پر پالیسی سازی میں اعلیٰ کردارادا کرنے پروفاقی کابینہ نے متفقہ طور پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل (مردِ میدان) کا عہدہ دیا۔
ذراتصورکیجیے کہ انڈیا کے پاگل پن کا علاج اگر نہ کیا جاتا اور یہ جنگ خدا نخواستہ پھیل جاتی تو اس کے کتنے ہولناک نتائج ہوتے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ انڈیا کے عوام کی تربیت اس انداز میں کردی گئی ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی تباہی دیکھنے کے مشتاق ہیں۔ انڈین میڈیا کی جھوٹ کی فیکٹری نے گوئبلز کو بھی مات دی۔ جھوٹی خبروں کو نشر کرنے کا مطلب واضح تھا کہ انڈیا کے عوام اپنی ٹی وی اسکرینوں پر روتی عورتیں ، معصوم بچوں کی لاشیں اور تڑپتے انسانوں کو دیکھنا چاہ رہے تھے۔
جنرل سید عاصم منیر کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی ایک فوجی اعزاز سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایک ایسے رہنما کیلئے قوم کی جانب سے خراج تحسین ہے جو اس وقت ثابت قدم رہے اور شاندار کارکردگی دکھائی جب پاکستان کو اپنی تاریخ کے انتہائی نازک چیلنج کا سامنا تھا اور افواج پاکستان پر طرح طرح کی تنقید کی جارہی تھی لیکن جب جواب دیا گیا تو وہ ایسا مسکت جواب تھا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔
دامن جھٹک کے وادی غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے
(علی سردار جعفری)
ان کی فیصلہ کن قیادت نے ملک کو بین الاقوامی سطح پر بے مثال وقار اور عزت و احترام کے ساتھ عوام کو ایک نیا آہنگ دیا۔اور ملکی وقار کوچار چاند لگا دیے۔
جو کو کنار کے خوگر تھے’ ان غریبوں کو
تری نوا نے دیا ذوقِ جذبہ ہائے بلند
7 مئی 2025ء کی رات بھارت نے پاکستان کی خودمختاری کی پامالی کیلئے بلا اشتعال اور بلا جواز فوجی حملہ کیا۔ اس تاریک گھڑی میں جنرل عاصم منیر نے بے مثال شجاعت، بہادری، واضح سوچ اور عزم کے ساتھ ملک کے دفاع کی قیادت کی اور انڈیا کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا اور دفاع کا حق ماضی کی طرح کسی کو سبوتاژ نہیں کرنے دے گا
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ان کی کمان میں مسلح افواج نے تیز، مربوط اور مستعدی سے جواب دیا، دشمن کے مقاصد کو موثر انداز سے ناکام اور پاکستان کی علاقائی سالمیت کے دفاع کو یقینی بنایا
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
جنرل سید عاصم منیر نے تینوں افواج کو ایک مربوط جنگی حکمت عملی کے تحت متحد رکھا جو ایک تاریخی اور باوقار کامیابی کا باعث بنی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نادر لمحہ تھا، ماضی میں سیاسی اور عسکری محاذ پر جس روش کا مظاہرہ کیا گیا، اس نے پاکستان کے امیج کو بہت برے طریقے سے متاثر کیا۔ ہمیشہ الزامات پر دفاعی پوزیشن اختیار کی گئی،مگر جنرل عاصم منیر نے دبنے کی بجائے آگے بڑھنے کی راہ اپنائی
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
اس جرات مندی کا تقاضا تھا کہ جنرل عاصم منیر کو ان کی غیر معمولی کارکردگی کیلئے حق بہ حق دار رسید کے مصداق غیر معمولی اعزاز سے نوازا جائے۔ ان کی قیادت کے اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ نومبر2022ء میں جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے تو اس وقت پاکستان کو دہشت گردی سمیت، معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اور داخلی وخارجی محاذ پر متعدد چیلنجز کا سامنا تھا۔ ایک طرف ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا جبکہ دوسری طرف ملک میں سیاسی بے یقینی ،بے چینی،ناامیدی اورمایوسی کادوردورہ تھا۔وہ حقیقی معنوں میں قوم کے سچے اور کھرے ہمدرد اور خیر خواہ کی حیثیت سے ابھرے۔ سیدعاصم منیر ملک کے واحداورمنفرد آرمی چیف ہیں جو آئی ایس آئی اور ایم آئی دونوں کی قیادت کر چکے ہیں۔ انہوں نے آفیسرز ٹریننگ اسکول سے اپنی ابتدائی تربیت مکمل کی، فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، 2014ء میںکمانڈر ناردرن ایریا تعینات ہوئے اور 2017ء میں ڈی جی ایم آئی مقرر ہوئے ، انہیں اکتوبر 2018ء میں ڈی جی آئی ایس آئی بنایا گیا تھا۔ جون 2019ء میں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہوئے، اکتوبر 2021ء سے آرمی چیف بننے تک جی ایچ کیو میں بحیثیت کوارٹر ماسٹر جنرل فرائض سرانجام دیتے رہے، جنرل سیدعاصم منیر کو دوران تربیت ان کی اعلیٰ کارکردگی پر اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔
جنرل سید عاصم منیر نے دشوار ترین حالات میں پاکستان کے بنیادی مسائل کاپائیدارحل تلاش کیا۔ ڈالر کی اڑان روکنے اور مصنوعی مہنگائی کرنے والے مافیاز پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا لیکن کسی مصلحت کے بغیر معیشت کی مضبوطی کیلئے ہرضروری قدم اٹھایاگیا۔اسپیشل انوسٹمنٹ اینڈ فیسیلی ٹیشن کونسل کا قیام ہماری قومی تاریخ کا ایک گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوا جس نے صرف 5 ماہ کی مختصر مدت میں پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کاراستہ ہموارکردیا،بدنام زمانہ دہشت گردوں کو چن چن کر جہنم واصل کیا۔سیاسی افراتفری کے سدباب کیلئے انتہائی معاملہ فہمی سے راستہ تلاش کیا ، 9مئی کا سانحہ برپا ہوا لیکن اس کے باوجود انہوں نے جمہوریت کوڈی ریل نہیں ہونے دیا ،بلکہ شرپسندوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے عزم کا اظہار کرکے پوری قوم کواپناگرویدہ بنالیا۔معاشی ترقی سے خوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیرکرنے کے ساتھ ساتھ پائیدار امن کا قیام اور سیاسی استحکام نیک نیت ،زیرک اورانتھک آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر کے وژن کا ثمر ہیں۔ مستقبل میں اسی وژن کو آگے بڑھایا گیا اور قوم کے اتحاد کو مثبت انداز میں نئی مہمیز دی گئی تو پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذ پر اپنے موچودہ وقار کو مزید بلندیوں پر لے جانے گا۔