22 مئی 2025ء کو بحریہ یونیورسٹی کراچی میں ایک عظیم الشان بین الاقوامی سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا، جسے الحمد یونیورسٹی اور بحریہ یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر منظم کیا۔ اس کانفرنس کا مرکزی موضوع عصرِ حاضر کی مسلم دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل سے متعلق تھا: ”عالم اسلام کو درپیش سیاسی، سماجی، معاشی چیلنجز اور ان کا تدارک سیرت النبی کی روشنی میں!” پاکستان سمیت سعودی عرب، ملیشیا، ایران، ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے اسکالرز نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں اپنے مقالات پیش کیے۔ ایک معتبر جیوری نے 155 منتخب مقالات میں سے 13 بہترین مقالات کو کانفرنس میں زبانی پیش کرنے کے لیے چْنا، اور انہی مقالات میں الحمد للہ راقم الحروف کے مقالے کو دوسری پوزیشن حاصل ہوئی۔
یہ میرے لیے نہایت فخر کی بات ہے کہ میں نے اپنی 45 سالہ زندگی میں پہلی بار کسی علمی مقابلے میں شرکت کی اور ربِ کریم، والدین، اساتذہ اور احباب کی دعاؤں سے عزت، مقام اور اعتماد حاصل کیا۔ اس اعزاز کے طور پر مجھے 75,000 روپے نقد، ایک اعزازی سند، شیلڈ، قیمتی تحائف اور کئی ممتاز علمی شخصیات کی جانب سے تحسینی کلمات اور دعائیں موصول ہوئیں۔
میری پیش کردہ تحقیق کا خلاصہ ایک تجزیے پر مبنی تھا، جس میں عالم اسلام کے موجودہ حالات کو سیرتِ طیبہ کی روشنی میں پرکھا گیا۔اس تفصیلی تجزیے کے چند اہم نکات یہاں نذر قارئین کیے جاتے ہیں۔
اگر ہم عالم اسلام کے 58 ممالک پر نظر ڈالیں، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے یہ دنیا کے بہترین خطے ہیں۔ ان کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل، نوجوان افرادی قوت، تزویراتی محلِ وقوع، اور عظیم تہذیبی ورثہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان ممالک کو جو سنگین بحران درپیش ہیں، وہ ہمارے اجتماعی زوال اور داخلی کمزوریوں کا آئینہ ہیں۔ سیاسی اعتبار سے مسلم دنیا اس وقت تین بڑے مسائل سے دوچار ہے: قیادت کا بحران، اتحاد و یگانگی کی کمی اور فروعی اختلافات کے سبب پیدا ہونے والی باہمی چپقلش۔ بدقسمتی سے بیشتر مسلم ریاستوں میں قیادت وراثت، طاقت یا مصلحت کے ذریعے طے پاتی ہے، جبکہ سیرتِ نبوی ہمیں قیادت کے لیے تقویٰ، دیانت، علم اور فہم کا معیار دیتی ہے۔
سماجی طور پر بھی مسلمان معاشرے انحطاط کا شکار ہیں۔ قوم پرستی نے امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ مذہبی عصبیت نے دلوں میں نفرت بھر دی ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ امانت، دیانت، سچائی، شرم و حیا جیسے اسلامی اوصاف اب نصاب کی کتابوں میں تو موجود ہیں، لیکن معاشرت میں ناپید ہو چکے ہیں۔ یہی وہ اخلاقی بحران ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بعثت کا بنیادی مقصد قرار دیا: ”میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔”
معاشی میدان میں بھی مسلم دنیا کی صورتِ حال افسوسناک ہے۔ ہمارے پاس تیل، گیس، سونا، تانبا، زرعی زمین، سمندری وسائل سب کچھ موجود ہے، مگر پھر بھی ہم عالمی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وسائل کا منظم استعمال نہیں ہو رہا۔ ہم برآمدات بڑھانے میں ناکام ہیں، نوجوانوں کے ہنر کی قدر نہیں اور ایک طبقاتی نظام نے انسانوں کو امیر و غریب کی دیواروں میں بانٹ رکھا ہے۔ اسلامی معیشت کی روح زکوٰة، عدل، کفالت، اور مساوات پر ہے، جسے ہم نے فراموش کر دیا ہے۔ان مسائل کا حل ہم کہیں باہر تلاش نہیں کر سکتے۔ ان کا واحد اور پائیدار حل سیرتِ رسول میں ہے۔ میری تحقیق میں درج ذیل دس تجاویز پیش کی گئیں، جو اگر عالم اسلام کی پالیسی کا حصہ بن جائیں تو حالات بدلنے کی امید پیدا ہوسکتی ہے:
پہلی تجویز یہ تھی کہ قیادت کا انتخاب بہادری، دیانت اور بصیرت کی بنیاد پر ہو۔ دوسری، باہمی اتحاد کے قیام پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ تیسری تجویز یہ تھی کہ مسلم دنیا کی اہم طاقتیں جیسے پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ایران، قطر، کویت، ملیشیا اور متحدہ عرب امارات نیٹو طرز کا دفاعی اتحاد قائم کریں۔ چوتھی، ایک عالمی مسلم بینک قائم کیا جائے تاکہ وسائل کا اشتراک ہو۔ پانچویں، ایک مشترکہ مسلم کرنسی متعارف کروائی جائے۔ چھٹی، مغربی قوتوں کے سامنے معذرت خواہ رویہ ترک کیا جائے۔ ساتویں، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے جدید یونیورسٹیوں کا قیام ہو۔ آٹھویں، دفاعی نظام میں باہمی تعاون کو بڑھایا جائے۔ نویں، مسلم حکمران خوف اور غلامانہ ذہنیت سے نکلیں اور دسویں، ہر میدان میں اسوہ حسنہ کو رہنما اصول بنایا جائے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ وہ انسان کو محض عبادات سکھاتا ہی نہیں بلکہ سیاست، معیشت، اخلاق، معاشرت، تعلیم، طب، تجارت اور قیادت جیسے شعبوں میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ آج کی دنیا کو اسی نظام کی ضرورت ہے۔ اگر عالم اسلام متحد ہو جائے، قیادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوہ پر عمل کرے اور امتِ مسلمہ فکری خود اعتمادی اختیار کرے تو نہ صرف مسلمانوں کا احیا ممکن ہے بلکہ پوری انسانیت کو عدل، امن اور فلاح کا راستہ دکھایا جا سکتا ہے۔