سوال یہ ہے کہ کیا بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے؟
ایک معروف کالم نگار نے یہ تھیوری پیش کی ہے کہ چونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی زخمی سانپ کی طرح تلملا رہے ہیں، بہت مشتعل اور زخم خوردہ ہیں، وہ پاکستان پر جلد دوسرا حملہ کر سکتے ہیں۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں محترم کالم نگار، اینکر نے ایک بزرگ ماہر علم نجوم کا حوالہ دیا ہے جنہوں نے انہیں اس جنگ سے پہلے بتا دیا تھا کہ مئی کا پہلا حملہ پاکستان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے بلکہ یہ خطرہ آئندہ دو ڈھائی سال تک رہے گا، ان بزرگ نجومی کے مطابق ستائیس مئی بڑا اہم اور خطرناک دن ہوسکتا ہے۔
کسی دست شناس یا ماہر نجوم کی رائے پر تجزیہ کرنے کے ہم قائل نہیں، ویسے بھی اس کالم میں چند باتیں ایسی بیان کی گئیں جو خلاف واقعہ ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں یہ بات بیان کی گئی کہ چونکہ پاکستان چین سے ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارہ جے پینتیس خرید رہا ہے، اس طیارے کے آنے کے بعد بھارتی فضائیہ ایک طرح سے مفلوج سی ہو جائے گی، اس لیے بھارت اس طیارے کے آنے سے قبل (اگلے چند دنوں میں) پاکستان پر حملہ کردے گا۔
انہیں شاید یہ بات پتہ نہیں کہ پاکستان بے شک چین سے جے پینتیس خرید رہا ہے، مگر اس ففتھ جنریشن طیارے کی پروڈکشن میں وقت لگتا ہے، شیڈول کے مطابق یہ طیارہ دو ڈھائی سال بعد ملنا شروع ہو جاتا بلکہ شاید دو ہزار اٹھائیس سے دو ہزار تیس تک ملنے تھے، اب اس کی رفتار تیز ہوجائے گی، مگر ایسا نہیں کہ ایک ہفتے میں یہ طیارے مل جائیں گے۔ پہلا جے پینتیس طیارہ پاکستان کو اگر اس سال کے اینڈ میں مل جائے تب بھی یہ کامیابی ہوگی۔ پاکستان کی خواہش اور کوشش ہے کہ کم از کم چار پانچ طیارے تو اسی سال ستمبر اکتوبر تک مل جائیں، ورنہ اگلے سال کے اوائل میں۔ اس لیے اگر مودی نے جے پینتیس ملنے سے پہلے پاکستان پر (خدانخواستہ) حملہ کرنا ہے تو پھر اس کے پاس کئی ماہ کی مہلت باقی ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمیں ہوشیار، مستعد اور چاک چوبند رہنا چاہیے۔ بھارت پاکستان کا ایسا دشمن ہے جس کی کوئی اخلاقیات نہیں اور جسے اس خطے پر اپنی طاقت اور رعب جمانے کا ازحد شوق بلکہ جنون ہے۔ اپنی طاقت کا سکہ بٹھانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کوئی اوچھا وار کر سکتا ہے۔ اس لیے اصولی اور نظری طور پر تو ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ دنیا بھر کے فوجی حلقوں میں ایک انگریزی محاورہ یا اصطلاح بہت بار برتی جاتی ہے، بہترین کی امید رکھو مگر بدترین کے لیے تیار رہو (ہوپ فار دا بیسٹ، پریپئر فار دا ورسٹ)۔ البتہ اس سیچوئشن کے حوالے سے کئی منطقی دلائل یہ بتاتے ہیں کہ بھارت سردست اپنے زخم چاٹ رہا ہے، وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ فوری دوسرا حملہ کر کے مزید زک اٹھائے۔ دراصل پاک بھارت جنگ یا ٹکرائو میں بھارتی جنگی برتری اور صلاحیتوں کا پول کھل گیا ہے۔ ایک دو چیزوں میں اس نے اپنی قوت کا مظاہرہ بھی کیا ہے، مگر بعض بہت اہم حوالوں سے اس کی نااہلی اور تکنیکی کمزوریاں بری طرح آشکار ہوئی ہیں۔ جب تک وہ ان چیزوں کو درست نہیں کر لیتا، تب تک دوبارہ مہم جوئی کرنا اس کے لیے تباہ کن اور خوش کشی کے مترادف ہوگا۔
بھارت کو اپنی ائیرفورس پر بڑا ناز تھا۔ مہنگے ترین رافیل طیاروں سے اسے لگتا تھا کہ پاکستانی ائیرفورس پر برتری حاصل ہوجائے گی۔ پہلے ہی معرکے میں رافیل اچھا پرفارم نہ کر سکے، پاکستان نے اپنے جے ٹین سی طیاروں یا ائیر ڈیفنس کے ذریعے اس کے تین رافیل اور مجموعی طور پر پانچ طیارے مار گرائے۔ یہ بڑا دھچکا تھا۔ خاص کر اس لیے کہ پاکستان نے اپنی غیرمعمولی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے رافیل کے ریڈار اور اس کے مشہور زمانہ الیکٹرک وار فیئر سوٹ سپیکٹرا کو جام یا غیر موثر کر دیا۔ اس فائٹ میں بھارت کے بیس سے پچیس رافیل طیارے حصہ لے رہے تھے۔ فائٹ چونکہ بصری حد سے باہر یعنی بی وی آر تھی، جس میں ڈیڑھ دو سو کلو میٹر دور سے مخالف طیارے کو ریڈار پر دیکھ کر لاک کر دیا جاتا ہے یعنی اس پر میزائل فائر کر دیتے ہیں۔ رافیل والے معاملے میں یہ ہوا کہ ان کا اپنا ریڈار سسٹم ہی جام ہوگیا اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہو سکا کہ وہ ہٹ ہو چکے ہیں۔ یہ زیادہ بڑا دھچکا تھا۔ پاکستان نے بعد میں دعویٰ کیا کہ ہم دس یا پندرہ طیارے بھی مار گرا سکتے تھے۔ عالمی عسکری ماہرین اس کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ جس طریقے سے تین طیارے نشانہ بنائے گئے، اس طرح دس پندرہ بھی ہٹ کئے جا سکتے تھے۔
اس سب تفصیل کا مطلب یہ ہوا کہ اب ان پانچ سات دنوں میں بھارت نے کوئی ایسا جادو ایجاد یا دریافت نہیں کر لیا جس سے رافیل کی یہ تکنیکی کمزوری دور ہو سکے۔ اگر وہ دوبارہ حملہ کرے اور یاد رکھیں کہ ائیر سپورٹ کے بغیر زمینی حملہ بھی نہیں ہوسکتا، ایسی صورت میں پاکستانی فضائیہ درجن بھر مزید رافیل طیارے مار گرائے گی۔ ایسی صورت میں بھارت کی مزید بدنامی، بے عزتی اور خوفناک قسم کی شکست گردانی جائے گی۔ جب تک بھارت مزید بہتر طیارے نہیں لے لیتا۔ ففتھ جنریشن طیارے ایف پینتیس یا پھر روس سے سخوئی ستاون یا پھر فرانسیسی ماہرین سے مشاورت کے بعد رافیل کے الیکٹرانک وار فیئر سوٹ میں کچھ تبدیلیاں یا کچھ ایسا جس سے لگے کہ آئندہ رافیل کچھ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے، تب تک بھارت کوئی بڑا فضائی حملہ نہیں کر سکتا۔
بھارت کے میزائلوں نے البتہ قدرے بہتر کارکردگی دکھائی۔ انہوں نے پہلے حملے میں پاکستانی سویلین مقامات کو نشانہ بنایا، یہ اٹیک طیاروں کے ذریعے کیا گیا تھا، سکالپ کروز میزائل استعمال ہوئے، مقصد شاید یہ تھا کہ طیارے سے اٹیک میں ریسپانس ٹائم کم ہوجاتا ہے۔ اسی حملے میں مگر اسے اپنے رافیل بھی کھونے پڑے۔ اس کے بعد بھارت نے اپنے براہموس میزائلوں سے پاکستان کے بعض ائیربیسز کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے ان کے کچھ میزائل انٹرسیپٹ کئے، بعض کو گمراہ کر کے دور دراز غیر آباد علاقوں کی طرف روانہ کر دیا۔ تاہم چند ایک میزائل کم وبیش درست اہداف پر لگے اور کچھ نقصان بھی ہوا۔ یہ اور بات کہ پاکستان کے جوابی حملے میں پاکستانی میزائلوں کی کارکردگی زیادہ شاندار رہی، بھارتی ائیر بیسز اور اہم عسکری تنصیبات نشانہ بنیں۔ بھارت کو اپنے روسی ساختہ ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم پر بھی بھروسہ تھا۔ اس جنگ میں وہ بھی ایکسپوز ہوا۔ پاکستان نے جے ایف سترہ تھنڈر کے ذریعے اینٹی ریڈیشین ہائپر سونک میزائلوں سے حملہ کیا اور اودھم پور میں لگے ایس چار سو سسٹم کو شدید نقصان پہنچایا، اسی وجہ سے پاکستانی میزائل فتح اول اور فتح دوم کئی بھارتی ائیر بیسز کو ہدف بنانے میں کامیاب رہا۔ بھارت کا ناقابل تسخیر اینٹی میزائل سسٹم کا تصور بھی اس جنگ میں پاش پاش ہوا۔ اب انہیں پاکستان پر میزائل اٹیک کرتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے پاس بہت تیز رفتار ہائپر سونک میزائل موجود ہیں جو اینٹی میزائل سسٹم کو چکمہ دے سکتے ہیں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس پوری جنگ میں بھارت عالمی حمایت سے بری طرح محروم رہا۔ چین، ترکی جیسے ممالک کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے، آزربائیجان نے بھی حمایت کی۔ ایران، سعودی عرب، عرب امارات جیسے ممالک جن کے ساتھ بھارت کے اربوں ڈالر کے ٹریڈ معاہدے ہیں، انہوں نے بھی ثالثی کی تو کوشش کی، بھارت کی حمایت قطعی نہیں کی۔ روس بھارت کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچ چکا ہے، روس نے بھی پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی، غیر جانبدار رہا۔ امریکا اور یورپی یونین سے بھی بھارت کو سپورٹ حاصل نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ فرانس جیسے ملک نے بھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ یہ پاکستان کی اہم کامیابی تھی۔ بعض بھارتی تجزیہ نگار بھی کھل کر کہہ رہے کہ بھارت عالمی سطح پر اکیلا اور تنہا رہ گیا ہے۔ اسی وجہ سے تو بھارت اپنے متعدد پارلیمانی وفد دنیا بھر میں بھیج رہا ہے، حتیٰ کہ مخالف جماعت کانگریس کے ششی تھرور تک کو وفد کا سربراہ بنانا پڑا ہے۔ ایسے میں جب بھارتی وفود بھارت کے لیے لابنگ کی کوشش کر رہے ہوں، تب بھارت اگر حملہ کر دے تو ان کے پاس کیا رہ جائے گا؟
ان تمام نکات کی روشنی میں سردست بھارت کے دوبارہ حملے کے امکانات موجود نہیں۔ ہمیں البتہ ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ یہ کام افواج پاکستان کا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت جیسے دشمن سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ ہم میڈیا والوں اور تجزیہ کاروں کو افواج پاکستان کے کام اپنے ہاتھ میں نہیں لینے چاہئیں۔ ملک میں دوبارہ سے پی ایس ایل شروع ہوگیا، پاکستان نے کوشش کر کے بنگلہ دیش کا ٹور کینسل ہونے سے بچایا، ان کی ٹیم چند دنوں میں آ رہی ہے، میچز بھی لاہور جیسے سرحدی شہر میں ہوں گے۔ حالات نارمل ہو رہے ہیں۔ لکھنے والوں کا کام ہے کہ عوام میں گھبراہٹ، سراسیمگی پیدا نہ کریں، انہیں وہ بتائیں جو درست ہے، غیر ضروری سنسنی نہ پھیلائی جائے۔