غزہ ۔ امداد کی بحالی یا خوفناک اسرائیلی منصوبہ؟

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ میں 2 مارچ سے جاری امداد کی بندش سے فلسطینیوں کے بھوکوں مرنے کا خدشہ تھا، تاہم اب اسرائیل نے امداد کی ترسیل دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے وقتی طور پر اہل غزہ کو ریلیف تو ملے گا، لیکن اس کے دور رس خطرناک نتائج کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ اسرائیل کی سیاسی و سلامتی کابینہ نے اتوار کے روز کیا ہے۔ یہ امداد 24 مئی کو نئی امدادی حکمتِ عملی کے آغاز تک مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے پہنچائی جائے گی۔ اسرائیلی صحافی باراک رافید کے مطابق اسرائیل نے فی الحال موجودہ چینلز کے ذریعے امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امداد میں اسپتالوں کے لیے ادویات اور عالمی تنظیموں کے زیرانتظام چلنے والی بیکریوں کے لیے آٹا جیسی غذائی اشیاء شامل ہوں گی۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے بتایا کہ اجلاس میں شریک کچھ وزرا کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ امریکی دباو کے تحت کیا گیا جبکہ اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ فیصلہ ووٹنگ کے بغیر کیا گیا، حالانکہ وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور بعض دیگر وزرا نے اس کی مخالفت کی تھی۔
اسرائیلی چینل 14 نے اطلاع دی ہے کہ غزہ میں انسانی امداد داخل کرنے کے فیصلے نے کابینہ کے اجلاس میں شدید بحث و تکرار کو جنم دیا۔ وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک سنگین غلطی قرار دیا۔ تاہم بن گویر کی جانب سے اس فیصلے پر ووٹنگ کرانے کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا: ’ہم نے فوج کی سفارش پر غزہ میں انسانی امداد داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فوجی کارروائی کے دائرہ کار کو وسیع کیا جا سکے۔‘ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر سے اسرائیل پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ غزہ کے عوام کو دانستہ طور پر فاقہ کشی کا شکار بنا رہا ہے۔ اسرائیل نے 2 مارچ سے اب تک وہاں خوراک اور ادویات کی رسائی روک رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے کہا: ’7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کا کوئی جواز نہیں لیکن فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دینا بھی کسی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔‘ انہوں نے غزہ میں مستقل جنگ بندی تمام مغویوں کی غیرمشروط رہائی اور بلارکاوٹ امداد کے بہاو کا مطالبہ کیا‘۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ یہ فیصلہ صرف ایک ہفتے کے لیے عارضی طور پر کیا گیا ہے، تاکہ امداد کی تقسیم کے مراکز مکمل کیے جا سکیں۔ امداد کی تقسیم کے زیادہ تر مراکز غزہ کے جنوبی حصے میں قائم کیے جائیں گے اور ان کا انتظام اسرائیلی فوج اور امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ امداد عالمی ادارہ خوراک (WFP)، سینٹرل ورلڈ کچن اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ذریعے تقسیم کی جائے گی۔
امریکی دباﺅ یا گھناﺅنی سازش
اخبار یدیعوت آحرونوت کے مطابق کابینہ کے متعدد وزرا کا خیال ہے کہ امداد کی فراہمی کا یہ فیصلہ امریکی دباو کے نتیجے میں کیا گیا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیف وٹکوف نے غزہ کی زمینی صورتِ حال کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیا۔ وٹکوف نے ABC نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ میں انسانی بحران کو جنم لینے کی اجازت نہیں دے گی۔ ان کا کہنا تھا: ’مجھے نہیں لگتا کہ صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے موقف میں کوئی اختلاف ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم تمام امدادی ٹرک غزہ تک کیسے پہنچائیں۔ ہم موبائل کچن اور آٹے سے بھرے ٹرک بھیج رہے ہیں اور اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ان ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے دیں گے۔ واشنگٹن غزہ میں انسانی بحران نہیں دیکھنا چاہتا اور صدر ٹرمپ کے دور میں یہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘ دوسری جانب عالمی ادارہ خوراک (WFP) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی سلامتی کی صورت حال ایک سنگین بحران کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب یہ ’قحط سے بچنے کی ایک دوڑ‘ بن چکی ہے۔ ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی بحال کرنے کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔
اگر امداد اس وقت تک رکی رہی جب تک قحط کی تصدیق ہو جائے تو تب تک بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بیان دیا ہے کہ غزہ کے بچے مسلسل بمباری کی زد میں ہیں اور انہیں بنیادی سہولیات، خوراک اور صحت کی خدمات میسر نہیں۔ تنظیم نے واضح کیا کہ گزشتہ دو ماہ میں صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے، خصوصاً اس لیے کہ اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی اُمور کی ترجمان اولگا چیریفکو نے غزہ سے تمام سرحدی راستے فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا: ’غزہ میں شہری ایسی ناقابلِ بیان اور بھیانک صورتحال کا سامنا کررہے ہیں جیسے وہ موت کے حوالے کر دیے گئے ہوں۔ صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔‘
اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے ایک بار پھر زور دیا: ’غزہ میں فوری مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے، تمام مغویوں کی غیرمشروط رہائی ہونی چاہیے اور امداد کی آزادانہ فراہمی یقینی بنائی جائے۔‘ ترک وزارتِ خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں میں توسیع کو ’امن کی کوششوں کو سبوتاژ ‘ کرنے کے مترادف قرار دیا۔ انقرہ نے فوری طور پر جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت کا مطالبہ دُہرایا اور بین الاقوامی برادری سے کہا کہ وہ اپنی قانونی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کرے۔ فرانس کے وزیرِخارجہ ژاں نوئل بارو نے کہا کہ اسرائیل نے تین ماہ کی سفارتی کوششوں کے بعد بالآخر غزہ میں امداد دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غزہ میں امداد فوری، وسیع پیمانے پر اور بلارکاوٹ فراہم کی جانی چاہیے تاکہ انسانی بحران ختم ہو اور قحط کا خطرہ مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔ غزہ پر مسلط سخت محاصرے کے ساتھ ساتھ اسرائیل چوبیس گھنٹے ہوائی اور توپ خانے سے شہری آبادی اور سول تنصیبات پر شدید بمباری جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں روزانہ بڑی تعداد میں شہری شہید ہورہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اتوار کی صبح سے اب تک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 140 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی حملے غزہ میں اجتماعی نسل کشی کی شکل اختیار کرچکے ہیں، جن کے نتیجے میں اب تک تقریباً 1,74,000 فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے جبکہ 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔
خوفناک سازش؟
اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں امداد کی تقسیم کا نیا سلسلہ پہلے ہی متنازع قرار پا چکا ہے۔ اس لیے حماس بھی اس کی مخالفت کرتی رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے۔ جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، اب تک سامنے آنے والے اسرائیلی منصوبوں سے ان کی تصدیق ہو رہی ہے۔ اس معاملے پر کام کرنے والے عرب اور اسرائیلی عہدیداروں کی جانب سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق منصوبے کا مقصد بڑے پیمانے پر تقسیم اور ذخیرہ اندوزی کے موجودہ ماڈل سے ہٹ کر بین الاقوامی تنظیموں اور نجی سیکورٹی کمپنیوں کے ذریعے خوراک کو براہ راست غزہ کے خاندانوں تک پہنچانا ہے، اس سلسلے میں امریکی پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے ملازمین تل ابیب پہنچ چکے ہیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے اسرائیل حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمت کاروں تک پہنچنے والے امدادی سامان کو روکنا چاہتا ہے۔ منصوبے کے مطابق ہر خاندان کا ایک نمائندہ مقرر کیا جائے گا جو غزہ کے جنوبی حصے میں واقع اسرائیلی فوجی سیکورٹی زون تک پہنچے گا، جہاں کئی مراحل کی جانچ پڑتال کے بعد اسے راشن مہیا کیا جائے گا۔ چہرے کی شناخت کا سسٹم بھی لگایا جائے گا، اس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کاروں کی جاسوسی کرنا ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے لیے جاسوس بھی بھرتی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہر ڈبے میں صرف چند دنوں کے لیے کافی خوراک ہوگی جس کے بعد خاندانوں کے نمائندوں کو نئی کھیپ لینے کے لیے دوبارہ سیکورٹی زون آنے کی اجازت ہوگی۔
اسرائیلی عہدیدار کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں سے ایک ’ آربِس‘ نامی امریکی نیشنل سیکورٹی کنسلٹنگ فرم کی ذیلی کمپنی ہے، جس کے کئی ایگزیکٹوز کے اسرائیلی وزیر برائے اسٹرٹیجک امور رون ڈرمر کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اطلاعات اور سیٹلائیٹ تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ رفح کے مغرب میں اسرائیل کی جانب سے بہت بڑا تعمیراتی پراجیکٹ شروع کیا جاچکا ہے جسے ممکنہ طور پر اسی کام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔