رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
کئی ہفتوں کی تیاریوں کے بعد دو دن قبل بروز ہفتہ (یوم السبت) کو صہیونی فوج نے ’عربات جدعون‘ آپریشن شروع کردیا جس کا مقصد غزہ پر مکمل قبضہ اور حماس سمیت دیگر مزاحمتی قوتوں کا مکمل صفایا ہے۔ ہفتہ کی صبح تباہ کن کارروائیوں کے ساتھ دجالی فوج نے اعلان کیا ہے: ’آج ہم نے غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر حملے شروع کر دیے ہیں اور افواج کی منتقلی کی گئی ہے۔ یہ سب ’عربات جدعون‘ نامی آپریشن کے تحت اور غزہ میں جنگ کو مزید وسعت دینے کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے۔‘ واضح رہے کہ اس آپریشن کا آغاز عین ہفتہ کے روز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہودی مذہب میں ہفتہ کا دن (سبت) بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس دن میں کام کرنا اور جنگ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
عربات جدعون؟
’عربات جدعون‘ ایک عبرانی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’جدعون کی گاڑیاں‘ یا ’جدعون کے پہیے‘۔ انگریزی میں اسے (Gideon’s Chariots) کا نام دیا جاتا ہے۔ ’جدعون‘ (Gideon) ایک بائبلی (تورات/ عہدِ قدیم) کردار ہے جو اسرائیلیوں کا ایک معروف فوجی رہنما اور قاضی تھا، جسے ایک طرح سے اسرائیل کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس نے دشمنوں خاص طور پر مدیانیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی تھی۔ صہیونیوں نے فتح مبین حاصل کرنے کے لیے اس آپریشن کا نام جدعون سے موسوم کیا ہے۔ اسرائیل میں اکثر فوجی کارروائیوں کو بائبلی یا علامتی نام دیے جاتے ہیں تاکہ اہلکاروں کو تاریخی، مذہبی اور نفسیاتی تاثر کے تحت جنگ پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ اسے خالص مذہبی جذبے سے لڑیں۔ پھر ’جدعون‘ کا نام اس لیے بھی چنا گیا ہے کہ وہ ایک چھوٹے گروہ کے ساتھ دشمن کی بڑی فوج کو شکست دینے والا رہنما تھا، یعنی ایک ماہرانہ فوجی حکمتِ عملی کی علامت ہے۔
19 ماہ کی مسلسل جنگ کے باوجود جب اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیموں کو شکست نہ دے سکا تو آخر میں یہ جدعون کے نام سے یہ آپریشن لانچ کیا گیا۔اس آپریشن کا مقصد حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ پر طویل مدت کے لیے مکمل قبضے کو یقینی بنانا ہے۔ بہ الفاظ دیگر غزہ کو قبضہ کرکے اب اسرائیلی ناجائز ریاست کا حصہ بنانا ہے جس کا اظہار اسرائیلی رہنما ببانگ دہل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے بعد یہاں یہودی آبادگاروں کو بسایا جائے گا۔ بالخصوص امریکا سے آنے والے صہیونیوں کو۔ اسرائیلی وزرا نے نیتن یاہو سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکا میں مقیم صہیونیوں کو غزہ میں آباد کرنے کی مہم شروع کرے۔ آپریشن عربات جدعون کے تحت زمینی، فضائی اور بحری کارروائیاں ایک ساتھ شروع کی گئی ہیں۔ صہیونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بائبلی نام کی حامل فوجی کارروائی کے نتیجے میں حماس کو شکست دینے کے ساتھ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرایا جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی حصوں، خاص طور پر بیت لاہیا اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں شدید فضائی اور زمینی حملے شروع کیے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جمعہ کی صبح تک گزشتہ 36 گھنٹوں کے دوران 250 سے زاید لاشیں اسپتالوں میں پہنچائی گئیں جبکہ بے شمار لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ شدید بمباری کے باعث نہ تو امدادی ٹیمیں ان تک پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے آلات ہیں کہ وہ ملبہ ہٹا کر لاشوں کو نکال سکیں۔ روئٹرز کے مطابق اسرائیل نے خود بھی 53,000 سے زائد افراد کی شہادت اور غزہ میں شدید انسانی بحران کی تصدیق کی ہے۔
فوجی حکمت عملی
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں غزہ کے تمام شہریوں کو شمالی سے جنوبی حصوں میں منتقل کیا جائے گا تاکہ حماس سے علیحدگی ممکن ہو۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج ہر قبضہ شدہ علاقے میں مستقل موجودگی کے لیے اپنے مراکز قائم کرے گی تاکہ حماس کی واپسی کو روکا جا سکے۔ شمالی غزہ کے باسیوں کو فی الفور علاقہ خالی کرکے جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم جاری کیا گیا ہے لیکن جو لوگ بے سروسامانی کے عالم میں ٹوٹے پھوٹے گھروں اور خیموں کو چھوڑ کر جان بچانے کے لیے نکلتے ہیں تو اسرائیلی طیارے انہیں بھی نشانہ بناتے ہیں۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں قحط کی صورتحال کا اعتراف کیا ہے اور انسانی امداد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور مستقل جنگ بندی کو مسترد کیا ہے۔
آپریشن کے مراحل
پہلا مرحلہ شدید فضائی بمباری سے شروع کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بحری اور زمینی حملوں کا بھی آغاز کیا گیا۔ اسی مرحلے میں شہریوں کو جنوب میں منتقل کرنے کی کوشش بھی جاری ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں زمینی افواج کو آگے بڑھانا ہے اور غزہ کے علاقوں پر قبضہ اور ممکنہ طویل مدتی فوجی موجودگی کی تیاری کرنی ہوگی اور تیسرے و آخری مرحلے میں ایک اسرائیلی سیکورٹی انتظامیہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پھر فلسطینی آبادی کو دیگر مقامات (شاید بین الاقوامی سرزمین یا لیبیا) پر ”رضاکارانہ“ منتقلی کی اسکیم کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
فلسطینی کہاں جائیں گے؟
امریکی نیوز چینل ’این بی سی نیوز‘ نے جمعہ کے روز پانچ باخبر ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایک منصوبے پر کام کررہی ہے جس کے تحت ایک ملین (10 لاکھ) فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے لیبیا منتقل کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق دو باخبر افراد اور ایک سابق امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ یہ منصوبہ اتنا سنجیدہ ہے کہ امریکا نے اس پر لیبیا کی قیادت کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کے بدلے میں امریکا وہ اربوں ڈالرز کی رقم جاری کرے گا جو واشنگٹن نے 10 سال سے زائد عرصے سے منجمد کر رکھی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ نے فروری کے آغاز میں ایک حیران کن تجویز دی تھی، نہ صرف عام لوگوں بلکہ اپنی انتظامیہ کے بہت سے افراد کے لیے بھی حیران کن، جب انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے وائٹ ہاوس میں ملاقات کے دوران یہ تجویز پیش کی کہ غزہ کے باشندوں کو مصر یا اُردن منتقل کیا جائے۔ اس تجویز کو ’انسانی بنیادوں پر‘ پیش کیا گیا۔ ٹرمپ کا یہ منصوبہ دراصل ان کے داماد جیرڈ کشنر کی گزشتہ سال پیش کردہ تجویز کا تسلسل تھا، جس میں غزہ کو ازسر نو تعمیر کر کے ایک ’بین الاقوامی ساحلی تفریح گاہ‘ میں تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جو امریکی کنٹرول میں ہو۔ ٹرمپ نے مصر اور اُردن پر سخت دباو ڈالا کہ وہ اس منصوبے کو قبول کریں اور غزہ سے بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آباد ہونے دیں۔ ٹرمپ اس بات پر ’پُراعتماد‘ نظر آرہے تھے کہ دونوں ممالک اس پر رضامند ہوجائیں گے۔ تاہم قاہرہ اور عمان نے اس منصوبے کو مسترد کردیا حالانکہ امریکا کی طرف سے اربوں ڈالر کی امداد روکنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔
منصوبے کی ناکامی کے آثار
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ یا تو ناکام ہو چکا ہے یا ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے، کیونکہ یہ منصوبہ حقیقت سے دور ہے اور اس پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ ’عرب مزاحمت‘ ہے جس کا اظہار نہ صرف مصر اور اُردن نے الگ الگ کیا بلکہ مارچ کے آغاز میں قاہرہ میں ہونے والی عرب لیگ کی سربراہی کانفرنس میں تمام عرب ممالک نے مشترکہ طور پر اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
