ٹرمپ اور مشرق وسطی۔ تومیرا غم گسار؟ ارے سب فریب ہے!

امریکا اور سعودی عرب نے 15مئی 2025کو اربوں ڈالر کے ایک تاریخی اقتصادی اور فوجی امدادی پیکیج پر دستخط کیے۔ 600ارب ڈالر سے زیادہ کے اس معاہدے میں دفاع، توانائی، انفراسٹرکچر اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ امریکا نے اسے ‘تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ قرار دیا ہے۔ معاہدہ پانچ اہم نکات پر مشتمل ہے۔

٭سعودی عرب کی فضائی اور خلائی صلاحیتوں کی مضبوطی۔ میزائل دفاعی نظام۔ میری ٹائم اور کوسٹل سکیورٹی۔
٭زمینی اور سرحدی افواج کی جدید کاری۔ معلومات اور مواصلاتی نظام کی بہتری۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے مل کر بے مثال اور زبردست پیش رفت کی ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئے روشن دور کا آغاز ہے۔ ایک ہزار سال میں پہلی بار دنیا اس خطے کو جنگ اور موت کی بجائے امید اور مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھے گی۔
تو میرا غم گسار؟ ارے سب فریب ہے!

محمد بن سلمان نے معاہدے کو دونوں ممالک میںگہرے اقتصادی تعلقات کا مظہر قرار دیا۔ آنے والے مہینوں میں اس معاہدے کو وسعت دے کر اس کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر تک بڑھا دی جائے گی۔ 15ستمبر 2020کو وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو، امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ عبداللہ بن زید النہیان اور عبداللطیف الزیانی نے ابراہام معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت بحرین اور عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اسرائیلی جارحیت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ان ‘معاہدوں’ کا امن سے کوئی تعلق نہیں۔ غزہ پر مسلط کردہ جنگ ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
ان معاہدوں کو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا ضامن قرار دیا جاتا رہا۔ حالانکہ زمینی حقائق واضح کر رہے ہیں کہ:
صبحیں اداس اپنی، شامیں دھواں دھواں سی
اب یہ میرے سفر کے سامان ہو گئے ہیں

مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کا عفریت فلسطینی علاقوں کو مسلسل نگل رہا ہے۔ معاہدوں کے بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ ٹرمپ نے سارا میلہ نتن یاہو کی خواہشات کی تکمیل کے لیے سجایا۔ معاہدہ ابراہیمی کے بعد عرب امارات، اسرائیل کا تجارتی حجم 60سے 70کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو مسجد اقصی تک رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔

عرب عوام فلسطین کاز کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ عرب رائے عامہ انڈیکس (2019ـ2020) میں 13عرب ملکوں کے 88فیصد افراد نے اسرائیل سے تعلقات نارملائز کرنے کے خیال کو مسترد کیا۔ مسلسل اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں عرب عوام بشمول ان چار ممالک کے فلسطینیوں کے دفاع میں متحد ویکسو ہیں۔ یہ بات بھی نوشتہ دیوار ہے کہ امریکا کو اسرائیلی بقا سے غرض ہے۔ ٹرمپ کے بھاشن اپنی جگہ، مگر عملاً وہ فلسطینی کاز کے دشمن ہیں۔
جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے
یہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو

فلسطینی مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد متعدد عرب ریاستیں تل ابیب سے اپنے رابطوں میں محتاط ہو گئیں۔ اس صورت حال میں معاہدہ ابراہیمی کے بعد ‘سب ٹھیک’ کا تاثر رنگ جما نہیں سکا۔

مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل تک سعودی عرب بھی اسرائیل سے کسی قسم کے سفارتی تعلقات کو خارج از امکان قرار دے چکا ہے۔ اسی لیے مملکت کی سیاسی قیادت اس میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ بیت المقدس اور مسجد اقصی صرف عربوں کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ ابراہیمی معاہدوں کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ ان معاہدوں کے تحت بین المذہب ہم آہنگی اور تینوں بڑے ”توحیدی” مذاہب کے ماننے والوں کو ایک ایسے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی گئی جو تمام مذاہب کو پس پشت ڈال کر ایک غیر نظریاتی انسان بنے جس کا نہ کوئی مذہب ہو نہ تہذیب اور اگر مذہب ہو بھی بس پوجا پاٹ تک محدود ہو۔ عملی زندگی سے اسے کوئی سروکار نہ ہو۔

معاہدہ ابراہیمی کے بعد ایک مذہب فری سوسائٹی کو مکالمات اور کانفرنسز کے ذریعے پروموٹ کیا گیا اور بتایا گیا کہ دنیا کی امن وسلامتی کیلئے بین المذہب ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ اس مقصدکیلئے ”شراکہ” جیسی این جی اوز کے ذریعے عرب نوجوانوں میں اسرائیل کے ساتھ وفود کے تبادلے اور مختلف پروگرام کرکے معاہدہ ابراہیمی کی افادیت کو امن کی راہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ یہ ایک ایسی شوگر کوٹڈ گولی ہے جس میں سب کیلئے سب قابل قبول ہیں، سوائے اسرائیل کے صہیونیوں کے جہاں یہودیوں کے علاوہ سب عمالیق یعنی جانور ہیں، جن کا خون بہانا یہودیوں کیلئے حلال ہے۔ اسرائیل کے ترانے کے یہ بول اس کے گواہ ہیں۔
جب تک دل میں یہودی روح ہے
یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھتا ہے
ہماری امید ابھی پوری نہیں ہوئی
اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب
اپنے خوابوں کی دنیا یروشلم
ہمارے دشمن یہ سن کر ٹھٹھرا جائیں
مصر اور کنعان کے سب لوگ لڑکھڑا جائیں
بیبولون (بغداد) کے لوگ ٹھٹھرا جائیں
ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی رہے
جب ہم اپنے نیزے ان کے سینوں میں گاڑ دیں گے
اور ہم ان کا خون بہتے ہوئے دیکھیں گے
اور ان کے سر کٹے ہوئے دیکھیں گے
تب ہم خدا کے پسندیدہ بندے ہوں گے جو وہ چاہتا ہے!

مگر ان تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود اسلام کا نظریاتی تشخص آج بھی قابل عمل ہے۔ بہرحال فلسطینی مزاحمت اور پاکستان کی انڈیا کے خلاف حالیہ کامیابی نئی صبح کی نوید جاں فزا ہے
انقلابِ صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل
پتھروں کو دے رہے ہیں آئنے کھل کر جواب