(اقتباس از ’اِسلام اور جدت پسندی‘۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی)
”بحمداللہ! پاکستان کے علمائے کرام کی اُمنگوں اور آرزووں کا مرکز پاکستان ہے اور اُن کے دل کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ یہ ملک اِسلام کے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کے ساتھ ساتھ مادی اعتبار سے بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات علماءایک طرف تو مسلمانوں کو یہ تاکید کرتے آئے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ماہرانہ تحصیل ہمارے فرائض کا اہم جز ہے اور اگر ہم نے اپنے اس فریضے میں کوتاہی کی تو ہم اللہ کے حضور مجرم ہوں گے ، دوسری طرف ان کی شبانہ روز دعائیں اسی کام کے لیے وقف ہیں جس کو علیم و خبیر ہی جانتا ہے۔تفصیل کا یہاں موقع نہیں، ہم اس وقت زمانہ حال ہی کے اُن چند علماءکی تحریروں کے کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں جن پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی مخالفت کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں طبقہ علماء کے سرخیل شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ تھے ۔ تعمیر پاکستان کے لیے اُن کی بے لوث قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے فروری 1949ء میں ڈھاکہ کی ایک کانفرنس میں پاکستانی علماءکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا:”خواہ اربابِ اقتدار ہمارے ساتھ کچھ ہی برتاو کریں، ہم خالص خدا کی خوشنودی اور اسلام اور اہل اسلام کی برتری اور بہتری کے لیے اپنی اس نئی مملکت کو مضبوط اور محفوظ بنانے میں امکانی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گے۔“ (خطبہ صدارت جمعیة علماءاسلام کانفرنس ڈھاکہ 10 فروری 1949ء ص 6 مطبوعہ کراچی)
آگے اسی تقریر میں ارشاد فرماتے ہیں: ”ہمیں اپنی استطاعت و امکان کی آخری حد تک اُن مادی ذرائع و وسائل کی فراہمی میں کمی اور سستی نہیں کرنی چاہیے جن سے ہم اپنے دشمنوں کے حوصلے پست کر سکیں اور ان پر اپنی دھاک بٹھا سکیں ، کیونکہ یہ چیز خود قرآن کریم کے صریح حکم ’ واعدّوا لہم ما استطعتم ‘الخ کے ذیل میں شامل ہے۔نیز ارشاد فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک تو ہمارے سارے فوز و فلاح کا راز ان چار لفظوں میں مضمر ہے: صبر و استقامت، تقویٰ و طہارت، اتحاد ملت، اعدادِ قوت حسبِ استطاعت۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اپنا تعلق صحیح رکھا جائے، تاکہ اس کی امداد و نصرت کے مستحق ہوسکیں اور ساری ملت اِسلامیہ متحد و یکجان ہوکر اپنی قدرت کی آخری حد تک وہ قوت فراہم کرے جس سے ابلیسی لشکروں کے حوصلے پست ہوجائیں۔“
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒصدر دارالعلوم کراچی اپنے رسالہ ’ جہاد‘ میں تحریر فرماتے ہیں:”صبر و تقویٰ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان و توکل تو مسلمانوں کی اصل اور ناقابلِ تسخیر طاقت ہے ہی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر زمانے اور ہر مقام کے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ بھی جمع کیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگی مشقوں کا اہتمام فرمایا۔ اُس زمانے میں جنگ کے جو ہتھیار تھے اُن کو جمع کرنے کی ہدایتیں فرمائیں۔ امام حدیث و تفسیر ابنِ کثیر ؒنے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں غزوہ حنین کے تحت نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی اس جہاد میں اِس لیے شرکت نہیں کرسکے کہ وہ بعض جنگی اسلحہ اور سامان کی صنعت سیکھنے کے لیے دمشق کے مشہور صنعتی شہر میں اس لئے گئے تھے کہ وہاں دبابہ اور ضبور کی وہ جنگی گاڑیاں بنائی جاتی تھیں ، جن سے اس وقت ٹینکوں جیسا کام لیا جاتا تھا۔ اسی طرح منجنیق کی صنعت بھی وہاں موجود تھی ۔
اس واقعے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ملک کو جنگی اسلحہ اور سامان کے لیے خودکفیل بنائیں دوسروں کے محتاج نہ رہیں، ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ جنگی گاڑیاں اور منجنیق وہاں سے خرید کر درآمد کر لی جاتیں ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر پورا غور کریں کہ ہم جیسے لوگوں کو اس کی ضرورت کس قدر زیادہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جنگ کے لئے جس طرح کے اسلحہ اور آلات اور سامان کی ضرورت ہے اس میں کسی سے پیچھے نہ رہیں اور اس کی کوشش میں لگ جائیں کہ قریب سے قریب مدت میں ان چیزوں کے لیے اپنے ملک کو خودکفیل بنا سکیں۔“ (’ جہاد‘ ص ۵۳ تا ۵۶ مطبوعہ کراچی 1965ء)
نیز اپنی ایک اور کتاب ’ آلات جدیدہ‘ میں حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں :”خلاصہ کلام یہ ہے کہ مصنوعات و ایجادات ، قدیم ہوں یا جدید جس سے انسان کی معاشی فلاح کا تعلق ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتیں ہیں جو انسان کو عطا ہوئی ہیں۔ عاقل انسان کا کام یہ ہے کہ ان نعمائے الٰہیہ سے فائدہ اٹھائے اور ان کا شکر گزار ہو۔“ ( آلات جدیدہ ص ۱۵ مطبوعہ کراچی 1381ھ) اور حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :”دشمن کے مقابلے میں قوت حرب (جنگی طاقت) کو اس حد تک بڑھانا چاہیے کہ دشمن پر ہیبت چھا جائے۔ ہمارے پہلے خلفاءو سلاطین اس حکم پر پوری طرح عامل تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت عثمانؓ میں پانچ سو بحری جہازوں کا جنگی بیڑہ تیار کر رکھا تھا ، دشمن کی جنگی قوت کی مدافعت کا پورا سامان خود تیار کرتے تھے۔ دوسروں کے دست نگر نہ تھے ، جیسے آج کل ہم دوسروں کے محتاج ہیں۔ سب مسلمان سربراہوں کو مل کر اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کرنے چاہئیں اور نئی نئی ایجادیں بھی کرنی چاہئیں ، یہ سب ’ اعدّوا لہم ما استطعتم من قوة ‘میں داخل ہیں۔“ (ماہنامہ ابلاغ جمادی الاولی 1387ھ۔ ص ۴۴)
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب بانی جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کراچی ماہنامہ ’ بینات‘ کے ایک ادرایے میں تحریر فرماتے ہیں:”عالم اسلام بالخصوص عرب کے صحراوں میں قدرتی وسائل، خام ذخائر اور مال و دولت کی کمی نہیں بلکہ فراوانی ہے، مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اُن کے مال و دولت کا بڑا حصہ یا تو غیرملکی بینکوں میں جمع ہونے کی وجہ سے دشمنانِ اسلام کے کام آتا ہے یا شاہ خرچی، عیش پرستی، عافیت کوشی اور آسائش پسندی کے لیے ضائع کیا جاتا ہے، لیکن فوجی استحکام، عسکری تربیت اور اسلحہ سازی تقریباً صفر ہے۔ دشمنانِ اسلام جگہ جگہ ہوائی اڈے، بحری بیڑے، فوجی چھاو¿نیاں اور اسلحہ سازی کے بڑے بڑے کارخانے قائم کر رہے ہیں، مگر عالم اسلام خدافراموشی کے ساتھ ساتھ ظاہری تدبیر سے بھی مجرمانہ غفلت میں مست ہے۔“ ( ماہنامہ بینات کراچی ربیع الثانی 1387ھ۔ ص ۴)
حضرت مولانا عبد الحق صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اپنی ایک تقریر میں اسی بات کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”تم نے یورپ سے صرف بدعملی اور بدتہذیبی سیکھی۔ وہ تو ایک منٹ میں ایک جہاز بنائیں، بے شمار بم اور راکٹ بنائیں ، یہود کو بچانے کے لیے اربوں روپے جمع کریں اور ہم اپنی خرمستیوں میں مبتلا رہیں ۔ اجتماعی مقاصد کو بالکل بھول جائیں تو اس کا انجام ہلاکت کے سوا آخر کیا ہوگا؟“ (ماہنامہ’الحق‘ اکوڑہ خٹک جولائی 1967ء۔ ص 17) حضرت مولانا شمس الحق صاحب افغانی ؒاپنے ایک مضمون ’ترقی اور اسلام‘ میں اس موضوع پر فاضلانہ گفتگو کے بعد تحریری فرماتے ہیں:”ترقی سے ہماری محرومی اور ہمارا یہ زوال ترکِ اِسلام کا نتیجہ ہے، ورنہ اسلام اور ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ اس آیت کے مطابق تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ تمام جدید آلات میں اتنی ترقی کریں کہ اگر مسیحی اقوام سے سبقت نہ لے سکیں تو کم ازکم مساوی ضرور ہوں اور عالم اسلام اس کے لیے اپنی پوری قوت استعمال کرے۔“ (ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ستمبر 1967ء۔ ص 22)“ ( محمد الیاس کچھی کا انتخاب)