پہلا راؤنڈ: کون کہاں کھڑا ہے؟

پچھلے دو ہفتوں سے جس کا خدشہ یا انتظار تھا وہ واقعہ آخرکار ہوگیا۔ بھارت نے پاکستان کے کئی مقامات کو میزائل حملہ کا نشانہ بنایا جن میں آئی ایس پی آر کے مطابق 26سویلین نہتے افراد شہید ہوئے، جن میں نصف کے قریب بچے اور خواتین شامل ہیں۔ پاکستان نے بھی اس کا زوردار جواب دیا اور یہ کالم لکھے جانے تک مقبوضہ کشمیر میں کئی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے، بریگیڈ یا بٹالین ہیڈکوارٹر کو نقصان پہنچانے اور کم از کم پانچ بھارتی فائٹر طیاروں کی تباہی کی خبریں آ چکی ہیں، جن میں بھارت کے مہنگے ترین رافیل طیارے سمیت، سخوئی تھرٹی اور مِگ انتیس بھی شامل ہیں۔

بھارت نے تو حسب توقع اس کی تردید کی ہے۔ ظاہر ہے اپنی ذلت وہ کیسے مان لے، مگر بی بی سی، الجزیرہ اور رائٹر جیسے عالمی نشریاتی ادارے بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔ کم از کم تین طیاروں کی تباہی تو بی بی سی نے انڈیا میں موجود اپنے نامہ نگاروں کے حوالے سے کنفرم کی ہے۔ ایک طیارے کے ملبے اٹھائے جانے کی ویڈیوز بھی وائرل ہو چکی ہیں۔ میرے حساب سے یہ جنگ کا پہلا رائونڈ ہے ۔ بھارت نے پہلگام حملہ کے پندرہ دن بعد پاکستان پر میزائل حملہ کیا۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگ اس پر حیرت کا اظہار کرتے پائے گئے کہ اتنی دیر کیوں ہوئی؟ انہیں معلوم نہیں کہ ایسے معاملات میں بہت سوچ سمجھ کر اور کیلکولیٹڈ اٹیک کرنا پڑتا ہے۔ بہت ہی نپا تلا ایکشن۔ چھ سال قبل پلوامہ اٹیک کے بعد بھارت نے بالاکوٹ پر ائیر سٹرائیک کر کے بمباری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور پھر اگلے روز اپنے دو طیارے تباہ کرا بیٹھا جبکہ پائلٹ ابھینندن گرفتار بھی ہوگیا۔ بالا کوٹ حملہ بھی پلوامہ اٹیک کے تیرھویں دن ہوا تھا۔ پلوامہ اٹیک چودہ فروری کو ہوا تھا جبکہ بھارت نے حملہ چھبیس فروری کو کیا۔ اس بار پہلگام حملے کے پندرہ دن بعد اٹیک کیا گیا، یہ بات قابل فہم ہے۔ بھارت نے نو پاکستانی مقامات پر حملے کا دعویٰ کیا تاہم پاکستانی ذرائع نے چھ مقامات کا کہا ہے۔ عملی طور پر بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ پنجاب کے دو شہروں بہاولپور اور مریدکے پر میزائل اٹیک ہوا جبکہ مظفرآباد اور کوٹلی میں بھی حملے کئے گئے، جبکہ سیالکوٹ سیکٹر میں بھی کنٹرول لائن کے پاکستانی طرف دو تین مقامات پر گولہ باری کی گئی۔

مجموعی طور پر بھارتی حملے مقصدیت سے عاری اور نہایت کمزور انٹیلی جنس کا نتیجہ تھے۔ یوں لگتا ہے مودی حکومت نے صرف بے وقوف بھارتی عوام اور عقل وفہم سے عاری جنونی بھارتی میڈیا کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے ایسا کیا۔ مریدکے پر حملہ شاید اپنی طرف سے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا۔ بھارتی اتنے بے وقوف ہیں کہ انہیں علم ہی نہیں کہ لشکر طیبہ کب کی بین ہو چکی۔ یہ مرکز خالی کرا لیا گیا، اب وہاں پر پرانے لوگ موجود ہی نہیں۔ ویسے بھی جب میزائل حملہ کیا گیا تب وہ مرکز خالی تھا، اس میں موجود مسجد پر حملہ ہوا، وہاں پر چوکیدار ٹائپ دو نہتے آدمی سو رہے تھے جو شہید ہوگئے۔ پنجاب میں دوسرا حملہ بہاولپور میں ہوا۔ میڈیا میں احمدپور شرقیہ کا نام آتا رہا، یہ بات غلط ہے۔ احمدپور شرقیہ میرا آبائی شہر ہے، وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ احمد پور شرقیہ روڈ پر بائی پاس کے قریب ہوا، بہاولپور شہر کی حدود میں ذخیرہ (مصنوعی جنگل) کے پاس پاس مسجد سبحان اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سابق ممتاز کشمیری جہادی لیڈر کا دینی مرکز رہا ہے۔ یہاں پر مسجد کے ساتھ مدرسہ ہے اور اندر چند کوارٹرز بھی بنے ہیں جہاں اساتذہ کے گھر بھی ہیں۔ وہاں پر مولانا ازہر صاحب کی ہمشیرہ اور ان کے اہل خانہ وغیرہ رہتے تھے۔ سب سویلین، غیر سیاسی، دین دار لوگ جن کا کسی قسم کی سرگرمی سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔ اس حملے میں چار مردوں سمیت خواتین اور بچے شہید ہوئے۔

کہا جا رہا ہے کہ اس جگہ پر میزائل حملے ایک سے زیادہ ہوئے، حملوں میں چند منٹوں کا وقفہ تھا، اسی وجہ سے آس پاس والے لوگ بھی شاید جمع ہوگئے، ایک دو شہادتیں ان کی بھی ہیں۔ یہ نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔ پاکستان انڈیا کی جنگوں میں کبھی سویلین آبادی کو یوں نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ویسے بھی کسی پاکستانی شہر پرحملہ 1971ء کے بعد یعنی پچھلے چون برسوں میں پہلی بار ہوا ہے۔ مظفرآباد میں مسجد بلال پر حملہ ہوا، اس حملے کی بھی کوئی تک نہیں تھی، یہاں پر تو مدرسہ تک نہیں۔ یہاں دو تین لوگ شہید ہوئے۔ اسی طرح کوٹلی میں بھی دو جگہوں پر حملے ہوئے، وہاں بھی کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ موجود نہیں تھا نہ کوئی جہادی کیمپ تھا۔ سیالکوٹ سیکٹر اور شکرگڑھ میں بھی یہی معاملہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی شہروں اور سویلین آبادی پر بھارتی حملہ ہر اعتبار سے نہایت شرمناک، ظالمانہ، سفاکانہ اور غیر مشروط مذمت کا مستحق ہے۔ پاکستان کے پاس اس کا بھرپور اور زوردار جواب دینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ عالمی قوانین پاکستان کو اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ہر جان قیمتی اور بیش بہا ہے۔ ہمارے اتنے لوگوں کی جانیں گئیں، یہ بڑا نقصان بھی ہے اور اس پر ہر پاکستانی کو شدید دکھ اور افسوس ہے۔ اس کا بھرپور بدلہ لیا جانا چاہیے، ایسا کہ بھارتیوں کی اگلی نسلیں بھی اسے یاد رکھیں۔ تاہم اگر غیر جانبدار تجزیہ کیا جائے تو یہ بھارتی حملے ناکام اور بے مقصد تھے۔ وہ کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ اگر ان کا مقصد کسی سابق جہادی لیڈر کو نشانہ بنانا تھا یا کالعدم تنظیم کو نشانہ بنانا مقصود تھا تو وہ بھی نہیں ہو سکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انٹیلی جنس ذرائع بالکل ردی، بیکار اور صرف بڑھکیں مارنے والے ہیں۔

پاکستان کا ردعمل میچور، فوری اور نپا تلا رہا، مگر پاکستان نے کیلکوٹیڈ ریسپانس دیا، جنگ کو محدود پیمانے تک رکھتے ہوئے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، کسی بھارتی شہر کی سویلین آبادی پر حملہ نہیں کیا۔ ممکن ہے غصے اور جوش انتقام میں کوئی پاکستانی یہ کہے کہ ہمیں بھی جواب میں ویسا کرنا چاہیے مگر بہرحال ہم نے جواب میں عام شہریوں کو نشانہ نہ بنا کر اپنی اخلاقی برتری کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ بھارت نے پاکستانی شہروں پر میزائل حملہ کیا ہے، اس کا جواب دینے کا حق پاکستان کے پاس ابھی موجود ہے۔ پاکستان نے جواب میں اس طرح کا میزائل حملہ نہیں کیا۔ ممکن ہے سوچ بچار کے بعد اگلے چند دنوں میں پاکستان کی جانب سے بھی بھارت پر میزائل حملہ ہو سکے، مگر تب بھی امکانات ہیں کہ پاکستان بھارتی سویلین آبادی کو اس طرح نشانہ نہیں بنائے گا کہ ہر امن پسند اخلاقی روایات پر کاربند ملک ایسا ہی کرتا ہے۔

پاکستان کی اصل کامیابی بھارتی جدید ترین فائٹر طیاروں کا نشانہ بنانا ہے۔ یہ بات بہت زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ بھارت کے پاس جدید ترین اینٹی بیلسٹک میزائل نظام ایس چار سو (S400)موجود ہے، بھارت کے پاس بہت مہنگے اور جدید ترین رافیل طیارے موجود ہیں جو فرانس سے کئی ارب ڈالر کی ڈیل کے بعد لیے گئے۔ رافیل جدید ترین الیکٹرانک وار فیئر کا بہترین طیارہ سمجھا جاتا ہے۔ فورپلس پلس جنریشن ہے۔ جزوی طور پر سٹیلتھ خصوصیت کا حامل اور اس کے پاس سکالپ کروز اور میکا، میٹیور جیسا جدیدترین ائیر ٹو ائیر مار کرنے والا میزائل موجود ہے جو دو سو کلو میٹر تک کے فاصلے سے مار کر سکتا ہے۔ رافیل طیارہ ریڈار پر ڈیٹکٹ کرنا بھی آسان نہیں۔ اس کا جدید ترین اینٹی میزائل اور اینٹی ریڈار سسٹم ‘سپیکٹرا’ بہت مشہور اور جدید ہے۔ یعنی رافیل کے ریڈار کو جام کرنا ہرگز آسان کام نہیں۔ پاکستان کے پاس اس مکمل طور پر کاؤنٹر کرنے کے لئے کوئی جدید ترین طیارہ موجود نہیں، تاہم جے ٹین سیڈریگن (فور پلس جنریشن فائٹر) کسی حد تک کاؤنٹر کر سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسی جے ٹین سی ڈریگن نے اپنے چینی ساختہ پی ایل پندرہ میزائلوں کے ذریعے دو یا تین رافیل طیاروں کو مارگرایا ہے ۔ بھارت کا روسی ساختہ سخوئی تیس بھی اچھا خاصا جدید طیارہ ہے، اس کا مقابلہ بھی آسان نہیں۔ اس لڑائی میں ایک سخوئی 30بھی گرایا گیا، ایک شاید مِگ انتیس تباہ ہوا۔

یہ غیر معمولی کامیابی ہے۔ خاص کر اس لیے کہ پاکستانی طیاروں نے بھارتی فضائی حدود عبور نہیں کی، اپنی فضا میں رہتے ہوئے انہوں نے کمال مہارت سے یہ سب کر دکھایا۔ یہ پاکستانی ائیر فورس کی بھارت پر برتری کا واضح ثبوت ہے۔ ویسے تو آخری اطلاعات کے مطابق تباہ ہونے والے طیارے پانچ سے بھی بڑھ چکے ہیں۔ اس حساب سے رائونڈ ون میں بھارت نے اپنی بزدلی، گھٹیا پن، کم ظرفی اور سفاکانہ طبیعت کا مظاہرہ تو کیا، مگر اس کا انٹیلی جنس سسٹم ناکارہ اور کمزور نظر آیا، وہ گھروں یا مسجد میں سوئے چند نہتے عام لوگوں کو نشانہ بنانے کی شرمناک اور وحشیانہ حرکت کے سوا وہ کچھ حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا، مگر بھارتی شہروں پر میزائل حملے کی آپشن ابھی اپنے پاس موجود رکھی، ہماری فضائیہ نے اپنی مہارت سے اپنے سے زیادہ جدید اور مہنگے بھارتی فائٹر طیارے مار گرائے، اپنا نقصان نہیں ہونے دیا۔ اس اعتبار سے پہلا راؤنڈ پاکستان کے ہاتھ آیا۔ بھارت کو البتہ شہروں پر حملے کی بھارتی قیمت ابھی چکانا باقی ہے۔ یہ بھی اِن شاء اللہ ہو جائے گا۔