قاری محمد قاسم بلوچ
تاریخ کے صفحات پر جن عظیم شخصیات کی روحانی، علمی، قومی و ملی خدمات سے آنے والی نسلیں ہمیشہ رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی اُن میں خواجہ خواجگان ابوالخلیل مولانا خان محمد ؒ بھی ہیں۔
آپؒ 1914ء میں موضع ڈنگ ضلع میانوالی ملک خواجہ عمرؒ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی نہایت متقی پرہیزگار اور علاقے کی معزز شخصیات میں سے تھے۔ آپ نے لوئرمڈل اسکول کھولہ سے چھٹی جماعت پاس کی۔ قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم مولانا عبدالطیف شاہ ؒسے اور ابتدائی دینی تعلیم خانقاہ سراجیہ میں مولانا عبد اللہ لدھیانوی ؒسے حاصل کی۔ چند ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد مولانا ابوالسعد احمد خان ؒکے حکم پر دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ میں داخل ہوئے۔ تین سالہ قیام کے دوران درجہ وسطیٰ تک کتابیں مختلف اساتذہ سے پڑھیں۔ دارالعلوم کے 1936ء کے ریکارڈ کے مطابق آپ دارالعلوم عزیزیہ میں بطور مدرس کے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس قیام کے دوران مولانا نصیرالدین بگوی شہید کی خصوصی توجہات حاصل رہیں۔ مولانا افتخار احمد بگوی کے ہم جماعت ہم درس اور ہم کمرہ تھے۔ دونوں رفیق کار بھی رہے اور فوج محمد و حزب الانصار کے جانثار کارکن بھی۔ اس تعلق میں دوستی اور برابری اور بے تکلفی تھی۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب ؒکے ساتھ مولانا افتخار احمد بگوی کے دوستانہ تعلقات تا دم آخر قائم رہے۔ حضرت جب بھی علاقہ بھیرہ میں تشریف لاتے ضرور دارالعلوم عزیزیہ حاضری دیتے۔ جامع مسجد میں وقت کی نماز یا نفل ادا کرتے اور التزام سے خانقاہ بگویہ پر حاضری دیتے، مراقبہ کرتے اور مغفرت کی دعائیں کرتے۔ بھیرہ میں قیام کے دوران مشائخ اور علماءبگویہ کا تفصیل سے اور محبت و عقیدت سے تذکرہ فرماتے۔ ان کی بیش بہا علمی، دینی اور روحانی خدمات بیان کرتے۔
تکمیل کے لیے برصغیر کی مشہور و معروف علمی و روحانی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں پر داخلے کے امتحان میں آپ تو کامیاب ہوگئے، لیکن دیگر دوست امتحان پاس نہ کرسکے جس کی وجہ سے آپ ساتھیوں سمیت جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا سید محمدیوسف بنوری، مولانا حافظ عبدالرحمن امروہی، مولانا ادریس سکروڈھوی اور مولانا عبدالعزیز کیمل پوری رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے جید علماءسے کسب فیض کیا۔ اس کے بعد آپ دینی علوم کی تکمیل کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے جہاں آپ نے مولانا اعزاز علی صاحبؒ اور دیگر نامور اساتذہ کے علاوہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرنے کے شرف کے ساتھ شاگرد خاص ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے آپ کے بارے میں پشین گوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ خواجہ خان محمد سے دین کا بہت بڑا کام لیں گے۔ 1941ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورہ¿ حدیث سے سند فراغت حاصل کر کے آپ واپس خانقاہ سراجیہ کندیاں تشریف لائے اور دینی کتب پڑھانے میں مشغول ہوگئے۔ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت تامہ عطا فرمائی ہے، جس کا فیضان آج بھی پوری دنیا میں جاری ہے۔ حضرت مولانا ابوسعد احمد خان نے 30 سال تک اس مرکز رشد و ہدایت کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو ذکر الٰہی سے منور کیا۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد پر بھی خصوصی توجہ فرمانے کے ساتھ ساتھ اپنی صاحبزادی کا نکاح بھی ان کے ساتھ کردیا۔ مولانا ابوسعد احمد خان کی وفات کے بعد مولانا عبداللہؒ المعروف حضرت ثانی جانشین بنے۔ مولانا عبداللہ سے تزکیہ و سلوک کی منازل طے کرتے ہوئے آپ سلسلہ نقشبندیہ کے ساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ اور دیگر سلاسل کی بھی خلافت سے سرفراز ہوئے۔
آپ کے شیخ و مرشد عبداللہ لدھیانویؒ آپ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے جو امانتیں اور خزانے میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا ابوسعد احمد خان نے مجھے عنایت فرمائے تھے وہ سارے کے سارے میں نے مولانا خواجہ خان محمد کے سپرد کردیے۔ ان کو اپنے بزرگوں کی خدمت و صحبت کی بدولت سے خوف و خشیت، بیم و رجا، اخبات و انابت اور اخلاص و للہیت جیسے کمالات حاصل ہوئے، جنہوں نے ان کو مقبولیت کے اس مقام بلند تک پہنچایا اور جنہوں نے ان کے کاموں میں برکت اور ان کی جدوجہد کو کامیابی عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزیمت کے بلند مقام پر فائز کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ آپ نے 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا، جس کی وجہ سے میانوالی جیل، بورسٹل جیل اور سینٹرل جیل لاہور میں قید و بند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ 1956ء میں جب جمعیت علماءاسلام قائم ہوئی تو آپ شروع دن سے جمعیت علماءاسلام کے رکن بنے اور تادم وصال اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد جمعیت علماءاسلام کے پلیٹ فارم سے ہر تحریک میں قائدانہ کردار اداکیا۔
آپ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے انتہائی بااعتماد دوستوں میں سے تھے اور حضرت کے دست راست تھے۔ حضرت مفتی محمود ؒ کی وفات کے بعد جب جماعت پر انتہائی مشکل حالات آئے تو جماعت کو بچانے میں آپؒ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ قائد جمعیت مولانافضل الرحمان کو مفتی محمود ؒ کا جانشین مقرر کیا اور اس کے بعد ہر لمحہ بھرپور سرپرستی فرمائی۔ حضرت قائد جمعیت بھی آپ کے بہت قریب رہے اور خانقاہ سراجیہ سے بڑا گہرا رشتہ قائم رکھا۔ آپ ؒ جمعیت کے اجلاسات میں باقاعدگی سے شرکت فرماتے تھے۔ آپ ؒ کو 1959ء، 1968ء اور 1973ء میں مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن، 1976ء میں مرکزی نائب امیر دوئم، 1980ء میں مرکزی نائب امیر اوّل اور 1982ء میں پھر مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن مقرر کیا گیا۔ 1985ء میں آپ سرپرست اعلیٰ اور 1990ء میں سرپرست دوئم مقرر کئے گئے، جبکہ 1992ء سے تادم وصال جمعیت علماءاسلام کے سرپرست اعلیٰ کے منصب پر آپ ہی فائز رہے۔ 1977ء میں مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی وفات کے بعد آپ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے مرکزی امیر کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد آپ زندگی کے آخری لمحات تک تحریک ختم نبوت کی قیادت کرتے رہے۔
1984 ء میں انہیں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ مرکزی مجلس عمل ختم نبوت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ قحط الرجال کے اس دور میں جب کبھی ملک میں کوئی ملی یا اجتماعی مسئلہ پیش آتا تو سب کی نظریں خواجہ خان محمد ؒ کی طرف اٹھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم و فضل کے ساتھ تواضع، تحمل، متانت، معاملہ فہمی، اخلاص اور ملک و ملت کے لیے دردمند دل کی دولت سے نوازا تھا۔ آپ ؒان حضرات میں سے تھے جو نام و نمود کے بجائے ملک و ملت کی خیرخواہی اور اُمت کی بھلائی کی خاطر مصروف عمل رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ مقبولیت سے نوازا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ دیوبند مکتب فکر کی مختلف جماعتوں اور حلقوں میں نکتہ اتحاد اور مرجع کا مقام رکھتے تھے۔
آپ عالمی مجلس تحفظ ختم بنوت کے مرکزی امیر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سرپرست بھی تھے۔ آپ کے دور میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ کام ہوا۔ پوری دنیا میں قادیانیت کا تعاقب کرتے ہوئے کئی ممالک میں ختم نبوت کے مراکز قائم کیے گئے۔ آپ اہل حق کی تمام جماعتوں اور تنظیموں کے سرپرست و مربی تھے۔ بڑے بڑے علماءو قائدین خانقاہ سراجیہ میں حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کے پاس مشورے اور دعاوں کے لیے حاضری کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ دیگر خداداد صلاحیتوں میں آپ کی انفرادیت اس طور پر بھی تھی کہ ایک رائے یا منہج کو قائم فرماتے تھے اور پھر اس پر ہمیشہ قائم رہتے تھے۔ اوقات کی پابندی فرماتے۔ نسبتوں کا حد درجہ احترام فرماتے۔ اساتذہ، مشایخ کے خانوادے کا احترام دیدنی ہوتا تھا۔ ان کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے پیش پیش رہتے۔ عقائد میں اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ اور اعمال میں فقہ حنفی پر سختی سے کاربند تھے۔ ہمیشہ عزیمت پر عمل کیا اور اسی کی تعلیم دی۔ خلقِ خدا سے حد درجہ ہمدردی فرماتے۔ ہر سائل اور زائر کی کی دلجوئی فرماتے۔ پاکستان کے علماءو صلحاء میں ان کی ذات اس وقت ایسی تھی کہ مختلف نقطہ ہائے نظر کے لوگ بھی ان کے علم و فضل، تقدس و تقویٰ، جہد و عزیمت اور ملت کے درد کے نہ صرف معترف تھے بلکہ ان کے آگے سر بہ خم تھے اور جو مشکلات میں بڑے بڑے علماءکے لیے مرجع بنی ہوئی تھی۔ آپ کی مثال ایسے گھنے اور سایہ دار درخت کی سی تھی جن کی چھاوں میں اُمت کے تمام افراد اور خصوصاً اہل علم ودین کو آغوش مادر کاسکون و سرور میسر آتا تھا۔ آج پوری علمی دینی وروحانی برادری اس عظیم سایے سے محروم ہو گئی اور ملت کا یہ سہارا چھن گیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 90 برس سے زائد تھی۔ 5مئی 2010ء بزور بدھ بعد نماز مغرب رشد وہدایت کا یہ سورج اپنے لاکھوں مریدوں کو سوگوار چھوڑ کر راہی دار البقاء ہوئے۔ آپ اپنے مرشد مولانا عبداللہ لدھیانویؒ کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔
حضرت خواجہ خان محمد ؒکی علمی روحانی وراثت سے اُن کے صاحبزادے مسند نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف ضلع میانوالی حضرت مولاناخواجہ خلیل احمد صاحب مخلوق خدا کو نفع پہنچا رہے ہیں۔ آپ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی نائب امیر ہیں۔عالمی مجلس ختم نبوت اور وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔ مجلس احرار اسلام کے شعبہ تبلیغ کی سرپرستی بھی فرما رہے ہیں،کتاب سے خصوصی لگاو ہے۔ اہل علم کے قدردان ہیں۔ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ مقبولیت سے نوازا ہے۔ تمام دینی و سیاسی جماعتوں میں آپ کو عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ خانقاہ سراجیہ کندیاں کے علاوہ پورے ملک میں اور لاہور میں بھی ماہانہ مجلس، جامع مسجد ابوسعد، کینال ولاز نعمان بلاک گلبہار سوسائٹی میں باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے، جہاں سیکڑوں لوگ تزکیہ نفس اور روحانی فیض حاصل کررہے ہیں۔
