ٹرمپ کی واپسی کے 100 دن

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
تمام نگاہیں اِس وقت امریکی ریاست مشی گن کی طرف مرکوز ہیں جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک خطاب کی تیاری کررہے ہیں، جس میں وہ اپنی دوسری مدتِ صدارت کے پہلے 100 دنوں میں کیے گئے انتخابی وعدوں پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کا جائزہ پیش کریں گے۔

یاد رہے کہ ٹرمپ جو امریکا کے 47ویں صدر ہیں، نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا میں ”چند دنوں میں امن قائم کرنے“ کا وعدہ کیا تھا، جس میں روس‘یوکرین جنگ کا خاتمہ اور اسرائیل‘ فلسطین تنازع کا حل ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر مشرقی یورپ تک اُمیدیں حقیقت کی رکاوٹوں سے الجھ گئیں، جس سے ایک ایسی حکمت عملی پر روشنی پڑی جس نے ان کے حامیوں اور ناقدین کے درمیان وسیع بحث چھیڑ دی۔ تو کیا ٹرمپ واقعی کوئی نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے؟ یا ان کے بلند و بانگ وعدے عالمی سیاست کی سخت حقیقتوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئے؟
غزہ میں امن کا خواب
ٹرمپ نے اسرائیل‘ فلسطین تنازع کے حل کے لیے رسمی طور پر وائٹ ہاوس میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ جولائی 2024ء میں میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے فلوریڈا کے مار،اے،لاگو ریزورٹ میں ملاقات کی اور انہیں جنگِ غزہ کے خاتمے کے عزم سے آگاہ کیا۔ اسی سال کے آخر میں ٹرمپ نے جائیداد کے ایک تاجر اسٹیو ویٹکوف کو مشرق وسطیٰ کے لیے اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا، حالانکہ انہیں کوئی سفارتی تجربہ نہیں تھا۔ ٹرمپ نے انہیں جنگ بندی کروانے اور یرغمالیوں کے مسئلے سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس وقت ٹرمپ کی حکمت عملی کا انحصار دونوں فریقین پر شدید دباو ڈالنے پر تھا تاکہ لڑائی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو ’خطے میں جہنم کی آگ بھڑک اٹھے گی‘۔ واقعی، طویل اور مسلسل مذاکرات کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ طے پایا، جو کہ ٹرمپ کی حلف برداری سے صرف ایک دن قبل ہوا۔ ٹرمپ نے اس کامیابی کا سہرا اپنی حکمت عملی اور اپنے ایلچی ویٹکوف کی کوششوں کو دیا۔ اس معاہدے کو اُس وقت ایک ’محدود لیکن اہم پیش رفت‘ قرار دیا گیا، جس کے تحت نسل کشی کی کارروائیاں روکنے اور قیدیوں کے مرحلہ وار تبادلے پر اتفاق ہوا۔ اگرچہ اس جنگ بندی نے وقتی طور پر زمینی صورتحال کو پُرسکون کرنے میں مدد دی، تاہم اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے اس پر عمل درآمد غیریقینی رہا اور شواہد اس بات کی نشاندہی کرنے لگے کہ کشیدگی برقرار رہنے سے یہ معاہدہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔
امن کی راہ میں رکاوٹ
ایک تاجر کے طور پر ٹرمپ کی اپنی خواہشات ان ابتدائی سفارتی کامیابیوں کو نقصان پہنچانے لگیں۔ فروری 2025ءمیں وائٹ ہاو¿س میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر نے اپنا متنازع منصوبہ ’مشرقِ وسطیٰ کی ریویرا‘ پیش کیا، جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے جبراً نکالنے اور اس علاقے کو عارضی طور پر امریکی انتظام میں لے کر دوبارہ ترقی دینے کی تجویز دی گئی۔ یہ منصوبہ عالمی برادری کی جانب سے سخت ردِعمل کا نشانہ بنا، کیونکہ اسے بین الاقوامی قانون اور فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس تجویز کو ’نسلی تطہیر‘ قرار دیا، جبکہ نیتن یاہو نے اسے ’ایک انقلابی خیال‘ باور کرایا جو ’تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے‘۔ مبصرین نے اس منصوبے کی تشریح یوں کی کہ اس نے اسرائیل کو غزہ پر قبضے اور نئی آبادیاں بسانے کے لیے ’گرین سگنل‘ دے دیا، جس کے نتیجے میں لڑائی کے دوبارہ بھڑکنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
داخلی صورتحال
اپریل 2025 میں پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے نے امریکی عوام کے درمیان ٹرمپ کی اسرائیل‘فلسطین معاملے سے نمٹنے کی کارکردگی پر گہرے اختلافات کو ظاہر کیا۔ سروے کے مطابق 31 فیصد امریکیوں نے کہا کہ ٹرمپ اسرائیل کی طرف حد سے زیادہ جھکاو¿ رکھتے ہیں جبکہ 29 فیصد نے رائے دی کہ وہ دونوں فریقین کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہیں اور 37 فیصد ایسے تھے جو اس معاملے پر کوئی واضح رائے نہیں دے سکے۔ جہاں تک غزہ پر قبضے کے منصوبے کا تعلق ہے تو اس پر 62 فیصد امریکیوں نے مخالفت ظاہر کی، جبکہ صرف 15 فیصد نے اس کی حمایت کی۔ مارچ 2025 میں گیلپ کی طرف سے کیے گئے ایک اور سروے میں یہ سامنے آیا کہ صرف 41 فیصد امریکی ٹرمپ کے غزہ سے متعلق اقدامات سے مطمئن ہیں جبکہ 53 فیصد نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
معاہدہ ٹوٹ گیا!
چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ 18 مارچ 2025¾ کو وہ نازک جنگ بندی ختم ہوگئی، جب اسرائیل نے غزہ پر شدید فضائی حملے کیے جن کے ساتھ وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے حماس کے خلاف ’زیادہ فوجی طاقت‘ استعمال کرنے کی دھمکیاں دی گئیں، تاوقتیکہ تمام قیدیوں کو رہا نہ کر دیا جائے۔ ان حملوں کے بعد انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، جبکہ بین الاقوامی سطح پر اس خدشے کے پیشِ نظر شدید انتباہات جاری کیے گئے کہ غزہ کے شہری شدید قحط کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو جنگ بندی کی خلاف ورزی واشنگٹن کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کو سیاسی اور عسکری طور پر بھرپور حمایت فراہم کر رہی ہے۔ اس بگڑتی صورتحال اور دو ماہ سے جاری اسرائیلی محاصرے کے دوران صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے نیتن یاہو پر دباو ڈالا ہے کہ وہ غزہ میں مزید خوراک اور ادویات جانے کی اجازت دے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ’وہاں لوگ مصیبت میں ہیں‘ اور اسرائیل کو غزہ کے لوگوں کے ساتھ نرمی برتنی چاہیے۔ اگرچہ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری سے قبل ایک کمزور جنگ بندی کے ذریعے محدود پیش رفت حاصل کی تھی، تاہم اس جنگ بندی کا تیز رفتاری سے خاتمہ معاملات کو دوبارہ نقطہآغاز پر لے آیا۔ سیاسی تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ غزہ میں ٹرمپ کے کاروباری عزائم اور اسرائیل کی جانب ان کے جھکاو کے علاوہ ان کی توجہ کا یوکرین‘روس تنازع کی طرف منتقل ہونا بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جلد امن قائم کرنے کا وعدہ ایک ایسا خواب بن کر رہ گیا جو اس پیچیدہ تنازع کی حقیقتوں کے سامنے بکھر گیا۔
یوکرین میں یکطرفہ امن منصوبہ
روس‘یوکرین جنگ سے نمٹنے کے سلسلے میں ٹرمپ کا انداز زیادہ مختلف نہ تھا اور یہاں بھی ان کا جھکاو تنازع کے ایک فریق کی طرف صاف نظر آیا۔ حلف برداری کے چند ہی دن بعد ٹرمپ نے روس پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دیں، اگر کوئی ’معاہدہ‘ طے پا کر جنگ کا خاتمہ نہ ہوا۔ تاہم ان کے بیانات میں کریملن کے لیے نرم لہجہ بھی نمایاں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں اور ان کا مقصد روس کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔ دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جس سے امریکا کی یکطرفہ حکمتِ عملی کے لیے دروازہ کھل گیا۔ 12 فروری کو دونوں صدور کے درمیان ایک ٹیلیفونک گفتگو ہوئی جس کے بعد فوری مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کا اعلان کیا گیا۔ اسی دوران امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگزیتھ نے نیٹو کے ایک اجلاس کے دوران کہا کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت غیر حقیقت پسندانہ ہدف ہے، جسے تجزیہ کاروں نے ممکنہ تصفیے کے حصے کے طور پر رعایت دینے کا عندیہ قرار دیا۔ تاہم ٹرمپ کی انفرادی کوششوں پر ابتدائی تنقید بھی سامنے آئی۔ یوکرین نے کسی ایسے مذاکرات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جن میں وہ خود فریق نہ ہو۔ اس نے یہ مو¿قف اختیار کیا کہ: ’یوکرین سے متعلق کوئی بات کیف کے بغیر نہیں کی جا سکتی‘۔ یورپ کی چھ بڑی طاقتوں نے بھی ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں یوکرین کی خودمختاری کی حمایت کا اعادہ کیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ یوکرینی عوام کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
تناو سے بھرپور مراحل
انتباہات کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے روس کے ساتھ اپنی بات چیت جاری رکھی۔ 18 فروری کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف نے شرکت کی۔ یہ اجلاس جس کا مقصد جنگ بندی کا راستہ تلاش کرنا تھا، یوکرین اور یورپی یونین کے نمائندوں کی غیرموجودگی میں منعقد ہوا۔ کیف کو مذاکرات سے باہر رکھنے پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ یوکرینیوں کو بہت پہلے ان بات چیت میں شامل ہو جانا چاہیے تھا‘ اور مزید کہا کہ وہ ’اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں‘۔ اگرچہ ریاض اجلاس میں ابتدائی سطح پر امن کی تجاویز پر بات ہوئی، تاہم بیشتر سیاسی تجزیوں کے مطابق یہ اجلاس کوئی بڑی سفارتی پیش رفت حاصل نہ کر سکا، کیونکہ یوکرین کو نظرانداز کیا گیا اور روس نے پیشگی شرائط پر زور دیا، جن میں مزید یوکرینی علاقے پر دستبرداری، نیٹو میں شمولیت سے انکار اور یوکرین کا غیرمسلح کیا جانا شامل تھا۔ ریاض اجلاس کے بعد صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کے تعلقات خراب ہونے لگے، خاص طور پر اس وقت جب ٹرمپ نے علانیہ طور پر زیلینسکی کی جائز حیثیت پر سوال اٹھائے اور نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر دیا۔
کشیدگی اپنی انتہا پر
28 فروری کو وہ کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب وائٹ ہاوس میں امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کے درمیان مشہور زمانہ تلخ کلامی ہوئی۔ زیلینسکی کے وائٹ ہاوس سے روانہ ہونے کے فوراً بعد واشنگٹن نے یوکرین کے ساتھ فوجی امداد اور انٹیلی جنس تعاون معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اقدام سے یوکرین مزید تنہائی کا شکار ہو گیا اور مبصرین نے نہ صرف واشنگٹن کی اپنے یورپی اتحادیوں کے لیے سنجیدگی پر سوال اٹھایا بلکہ ٹرمپ کی مذاکراتی صلاحیت پر بھی شکوک کا اظہار کیا۔ یہ وہ دورہ تھا جس سے عالمی برادری کو امن کی راہ ہموار ہونے کی امید تھی، مگر یہ ایک ضائع شدہ موقع بن کر رہ گیا، کیونکہ صدر ٹرمپ نے جنگ بندی یا بات چیت پر زور دینے کے بجائے یوکرین کو معدنیات کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس صدر زیلینسکی اس ملاقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے ملک کو اس کے بنیادی دفاعی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے جبکہ روس پر کوئی موثر دباو نہیں ڈالا جا رہا۔ اس سب کے باوجود زیلینسکی نے وائٹ ہاوس میں پیش آئے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ یوکرین جلد از جلد مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے تیار ہے۔
روسی ہٹ دھرمی
11 مارچ کو ٹرمپ کی کوششوں کے نتیجے میں روس اور یوکرین کے نمائندے سعودی شہر جدہ میں ملاقات کے لیے جمع ہوئے، جہاں 30 دنوں کے لیے توانائی کے مراکز پر حملوں کے عارضی توقف پر ایک ابتدائی معاہدہ کیا گیا۔ یوکرین نے فوراً اس پر رضامندی ظاہر کی جبکہ پیوٹن نے اپنی فوجی کامیابیوں کو جواز بنا کر اس معاہدے پر دستخط میں تاخیر کی۔ اگرچہ ٹرمپ نے بعدازاں پیوٹن کو بڑے معاہدے کی طرف مائل کرنے کی کوششیں کیں، لیکن کریملن نے حیران کن طور پر 30 گھنٹے کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا، جو عیدالفصح کے موقع پر کی گئی اور اس کا اعلان بغیر کسی امریکی مشاورت کے کیا گیا۔ اس عمل کو واشنگٹن کے لیے ایک سفارتی شرمندگی سمجھا گیا۔ چیلنجز کے تسلسل کے ساتھ یہ ظاہر ہونے لگا کہ ٹرمپ نے غیرملکی پالیسی میں دیگر اہم معاملات کی موجودگی کو محسوس کیا اور امریکی وزیرِخارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ صدر نے ’اس معاملے پر بہت زیادہ وقت اور توانائی صرف کی‘ مگر دنیا میں دیگر بہت سے ایسے اہم مسائل ہیں جن پر امریکی انتظامیہ کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ کوششوں کی ناکامی کے اسباب
تجزیہ کاروں نے ٹرمپ کی کوششوں کی ناکامی کو کئی وجوہات کے ساتھ منسلک کیا ہے، جن میں سب سے اہم یہ تھا کہ روس پر موثر دباو نہیں ڈالا گیا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کی انتظامیہ نے روسی تجاویز کو قبول کرنے کا رجحان دکھایا، جن میں کریمیائی جزیرہ کو روسی علاقے کا حصہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کیف کے لیے کوئی مضبوط سیکورٹی ضمانتیں نہیں پیش کی گئیں، جبکہ یوکرین نے اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھتے ہوئے کسی بھی مذاکرات سے پہلے مضبوط دفاعی ضمانتوں کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ ٹرمپ نے تجربہ کار سفارتی ٹیم کے بجائے ریئل اسٹیٹ کے ماہرین کو مذاکرات کے لیے منتخب کیا، جس سے ان کی روسی حکام جیسے تربیت یافتہ مذاکرات کاروں کے ساتھ لچک دکھانے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔ ایک حالیہ پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق 43 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ ٹرمپ روس کے مفاد میں زیادہ جھکاو رکھتے ہیں جبکہ تقریباً 3 میں سے ایک شخص کا خیال ہے کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان مناسب توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صرف 3 فیصد نے کہا کہ وہ یوکرین کے حق میں زیادہ جھکاو رکھتے ہیں اور 22 فیصد نے کوئی واضح موقف نہیں اپنایا۔ ان مسلسل ناکامیوں کے باوجود صدر ٹرمپ اب بھی روس اور یوکرین کے درمیان کسی معاہدے کے امکان کے لیے پُرامید ہیں اور حال ہی میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے بنیادی نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔
نئے داخلی و خارجی محاذ
ٹرمپ پہلے سے جاری جنگیں اور کشیدگیاں کیا ختم کرتے، انہوں نے کئی داخلی اور خارجی محاذ کھول دیے ہیں۔ مختصراً یہ کہ امریکا میں تارکین وطن کی توہین آمیز پکڑ دھکڑ، شیرخوار بچوں کی جلاوطنی، غزہ پر جہنم کے دروازے کھل گئے، یمن پر آگ و آہن کی موسلادھار بارش۔ کینیڈا، نہر پاناما اور گرین لینڈ پر قبضے کی دھمکی۔ طلبہ سے بدسلوکی۔ جامعات میں طلبہ سرگرمیوں پر پابندیاں۔ امتیازی سلوک کو سرکاری تحفظ ، جامعات کے لیے سرکاری گرانٹس کی بندش اور ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ۔ گرین لینڈ پر قبضے کی خواہش، چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا اعلان وغیرہ۔ اس طرح کے کئی اور نرالے اقدامات کے ساتھ صدر ٹرمپ اپنے دوسرے عہد اقتدار کے ابتدائی 100 دن کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بقول کلیم عاجز
ابھی تیرا عہد شباب ہے، ابھی کیا حساب و کتاب ہے
ابھی کیا نہ ہوگا جہان میں، ابھی اس جہاں میں ہوا ہے