عالمی یومِ مزدور اور مزدوروں کی حالت ِ زار

رپورٹ: عرفان احمد عمرانی
آج یکم مئی کو دنیا بھر میں یوم مزدور مناکر مزدوروں کی فلاح و بہبود کے بلند بانگ دعوے کیے جائیں گے، ہمارے حکمران بھی مزدوروں کے حقوق کے لیے فرضی دعوے کریں گے، مگر مزدور وں کی زندگی عملاً مفلوج کردی گئی ہے، بدترین مہنگائی کے ساتھ مزدوروں سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔
دینِ اسلام نے مزدور کو اللہ ربُّ العزت کا دوست قرار دیا ہے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرنے کا حکم دے کر اس کی اہمیت واضح کی ہے۔ دنیا بھر میں مزدور طبقہ معاشی ترقی میں اہم کردار کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے اشیائے خورو نوش پوری دنیا کو میسر آتی ہیں، لیکن خود اُن کا معیار زندگی اور معاشی حالات میں کئی عشروں سے کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آئی ہے۔ حکمران مزدوروں، غریبوں کی فلاح و بہبود کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آتے ہیں مگر صرف اپنے آپ کو خوش حال کرکے گھر چلے جاتے ہیں، غریب مزدور کو آج تک خوشحالی نہ مل سکی۔
ملک میں طبقاتی جنگ جاری ہے جس میں تعلیم،معاش، سیاست اور معاشرہ ہر شعبہ لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔مزدورں کا عالمی دن منانے کا مقصد اُن کے حقوق کا تحفظ اور روز گار میں بہتری لانا شامل ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں مزدورں کی حالت کی بہتری کے لیے ہر حکومت کے دعوے اور اعلانات صرف اخباری سرخیوں تک نظر آتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ملک میں کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے پر کہیں عمل درآمد نہیں ہورہا۔ دنیا کے اس کثیرالتعدد طبقہ کو ہر جا نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان کا معیار زندگی ابھی تک بہتر نہیں ہوا۔ ملکی لیبر قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بین الاقوامی لیبر قوانین کے معیار کے مطابق لائے جاسکیں۔ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2012ءاور صوبائی مزدوروں کے قوانین بین الاقوامی، مزدور تنظیم (آئی ایل او) جس کی پاکستان نے توثیق کی ہوئی ہے، بشمول کنونشن 87 برائے انجمن سازی اور کنونشن 98 برائے حقوق تنظیم سازی و اجتماعی سودا کاری کے، مگر ہمارے قوانین ان میں سے کسی کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔
پاکستان میں کام کرنے والے مزدور افراد کو متعدد معاشی اندیشوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ٹیکسز کی بھرمار کے باعث چھوٹی بڑی صنعتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے، جس کی بنا پر بے روزگار ی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ بدترین مہنگائی کے باعث لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ حکومتی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں کئی کارخانے، ملیں اور فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں یا بند ہونے کے عمل میں ہیں۔ بجلی بلوں نے گھریلو صنعت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 45 فیصد محنت کشوں پر مشتمل ہے، جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے 7 کروڑ بنتی ہے۔ ملک کی لیبر فورس کا 45فیصد زراعت، 29فیصد ہوٹلوں اور دیگر تجارتی و کاروباری شعبے، 13فیصد پیداوار، چھ فیصد تعمیرات اور پانچ فیصد ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے سے وابستہ ہے۔
پاکستان کے بہت سے لوگ دنیا کے دوسرے ممالک میں مزدوری کرکے روزگار سے وابستہ ہیں اور زرِمبادلہ کا ذریعہ بھی ہیں۔ حکومت ان کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی بھی کرتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے حکومت نے وزارت بھی قائم کی ہوئی ہے مگر افسران کا عیاشیوں کے سوا کچھ کام نہیں۔ لیبر افسران مزدوروں کے نام پر اُن کا حق کھا رہے ہیں۔ سرکاری مزدور پھر بھی ریلیف پارہے ہیں۔ غیرسرکاری اور عام مزدور، پرائیویٹ ملازمین کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔پاکستانی مزدور دنیا بھر میں کام کرتا ہے۔ موسم کی شدتوں میں اوقات کار اور اُجرت سے بڑھ کر محنت مشقت کا بوجھ اٹھاتے مزدوروں کے لیے اس دن کو منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس محنت کش طبقے کے استحصال کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔ تاہم پاکستان میں ہر برس یومِ مزدور زور و شور سے منانے کے باوجود ملک کا یہ طبقہ اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔
مزدور معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے ملک کے تمام شعبوں کو چلانا ہوتا ہے اور ملکی درآمدات اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔پاکستان کے عام مزدوروں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، اس سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ دنیا کی صنعتیں مزدوروں سے وابستہ ہیں، مزدور کی خوشحالی اور ترقی ملک کی ترقی ہے۔ اسلام نے مزدور کو اہم مقام دیا ہے۔ طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اپنے فرائض اور حقوق کا ہر شخص خیال رکھے۔ مغربی فلسفہ دانوں نے تو اپنے فلسفہ میں مزدور کو منافع کا حقدار ٹھہرایا ہے، مزدور کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہی قوموں کی ترقی کا سبب ہے۔ مزدور ہماری قوت و طاقت ہیں۔ مزدور کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے، صرف سرکاری اور صنعتی اداروں کے مزدوروں کو ہی نہیں عام مزدروں، پرائیویٹ اداروں، عام کارخانوں‘ ورکشاپس میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی ریلیف دیا جائے۔