ہتھیار ڈالنا کوئی حکمت ِعملی نہیں!

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لیے جاری مذاکرات میں حماس کو ہتھیار ڈالنے کے بدلے امان دینے کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔
پاکستان سے بھی ماضی میں ایٹمی ہتھیاروں کی حوالگی کے مطالبات سامنے آئے تھے جسے پاکستان نے مسترد کردیے تھے اور اسی فیصلے کے طفیل آج پاکستان انڈیا کے معاندانہ روئے اور شرانگیزی کے آگے ایک مضبوط پوزیشن میں کھڑا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاک بھارت کشیدگی بین الاقوامی میڈیا کا اہم موضوع ہے۔ متعدد ممالک کی جانب سے سب تک دونوں ممالک کے درمیان معامعلات حل کرنے میں ثالثی کردار اداکرنے کی پیشکش بھی ہوئی ہے۔ پاکستان سے متعلق اسلامی دنیا میں عوامی سطح پر ایک اچھا اور مثبت تاثر قائم ہے۔ ہتھیار ڈال کر امن کے حصول کا فیصلہ تاریخ کی بڑی غلطی ہے اور ایسے ممالک یا اقوام نے بہت بھیانک اور غیر متوقع نتائج کا سامنا کیا ہے۔
146 قبل مسیح میں روم نے شمالی افریقہ کے ساحلی شہر قرطاج (حالیہ عرب ملک تیونس کا دارالحکومت ہے) کے باشندوں سے امان دینے کی شرط پر ہتھیار پھینکنے کا معاہدہ کیا۔ قرطاج کے باشندوں نے اسلحہ حوالے کیا۔ رومی شہر میں گھس آگئے اور قتل و غارت کی تاریخ رقم کی۔ قرطاجیوں کو قتل کیا اور ہزاروں کو غلام بنالیا۔ 21 میں رومیوں نے ارمینیوس بادشاہ کو فتح کے بعد صلح کی پیشکش کردی اور صلح کے نام پر انہیں بلانے کے بعد گرفتار کرکے قتل کردیا اور ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں تبدیل کردیا۔ 732 عیسوی میں اندلس کے مسلم کمانڈر عبد الرحمن الغافقی کے ساتھ انگریز کمانڈر شیرل مارٹل نے حالیہ فرانس کی سرزمین پر ’امن معاہدہ‘ کیا۔ اسلامی لشکر کے جن دستوں نے ہتھیار حوالے کئے انہیں بدترین طریقے سے شیرل کی فورسز نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس قتل عام کو ’بلاط الشہدائ‘ قتل عام کا نام دیا گیا جو تاریخ کے اوراق میں موجود ہے۔ 1220ء میں چنگیز خان نے خوارزمی سلطنت کے بعض کمانڈروں کے ساتھ امن معاہدہ کرکے انہیں ہتھیار ڈالنے پر قائل کرلیا لیکن ہتھیار ڈالنے والے خوارزمی فوج کو چنگیز خان کی فورسز نے بدترین طریقے سے تہہ وتیغ کیا۔ 1258ء میں ہلاکو خان نے بغداد میں داخل ہونے سے قبل اس وقت کے عباسی خلیفہ المستعصم کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور انہیں ہتھیار ڈالنے کے بدلے امن دینے پر راضی کیا، جس کے بعد ہلاکوخان نے داخل ہوکر نہ صرف مستنصر کو بدترین طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا بلکہ خوبصورتی اور ترقی کی بلندیوں پر فائز بغداد کو تخت وتاراج کردیا۔
1401 ءمیں تیمور لنگ نے بھی بغداد کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ بغداد والوں کو امن دینے کے بدلے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور بعدازاں انہیں قتل کرکے ان کی کھوپڑیوں سے مینار کھڑے کردیے۔ 1492ء میں اندلس کے آخری مسلمان بادشاہ عبداللہ نے مسیحی بادشاہ فرنینڈو اور ملکہ ازابیلا کے ساتھ اس شرط پر معاہدہ کرکے حکومت ان کے حوالے کیا کہ یہاں کے مسلمانوں کو امان دیا جائے گا اور وہ تمام تر انسانی اور شہری حقوق کے ساتھ رہیں گے، لیکن اقتدار ہاتھ میں لینے کے بعد نہ صرف اندلس کے مسلمانوں کو بدترین طریقوں سے قتل کیا گیا بلکہ بچنے والوں کی تفتیشی عدالتوں کے سخت اور متعصبانہ نظام سے گزار کر اذیت ناک سزائیں دی گئیں۔
1609ء میں قشتالہ کے مسیحی حکمران نے بھی اندلس کے مسلمانوں کو امن معاہدہ کے بعد قتل کیا۔ 1799ء میں نیپولین نے مصر اور شام پر قبضے کے وقت فلسطینی شہر یافا میں عثمانی فوجیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کیا۔ کئی دن کی مزاحمت کے دوران جب نیپولین کو شکست نظر آگئی تو اس نے یافا کے عثمانی فورسز کو صلح کی پیش کردی اور انہیں ہتھیار حوالے کرنے پر قائل کرلیا۔ ہتھیار ڈالتے ہی نپولین نے 14 ہزار عثمانی فورسز کو حراست میں لیکر بدترین موت ماردیا۔ 1801ء میں نیپولین نے مصر میں ممالیک کمانڈروں کو دورے پر بلاکر قتل کیا۔ 1804ء میں روسی جنرل تسیتوف کی قیادت میں قفقاز کے علاقے جانجا قلعہ میں فاتح مسلمانوں کو امن کا وعدہ کرکے روسی فورسز نے وحشیانہ موت ماردیا۔ 1837ء میں الجزائر میں فرانسیسی استعمار نے امیر عبد القادر کے کمانڈروں کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے بعد امیر محی الدین نامی مشہور مزاحمتی کمانڈر کو سفاکی کے ساتھ قتل کیا۔ 1842ءمیں برطانوی فورسز نے افغان مجاہدین کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن نکلتے وقت برطانوی فورسز نے انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔
1929 ء میں برطانوی استعمار نے برصغیر میں مسلم مزاحمت کاروں کے ساتھ معاہدے کے بعد دھوکہ دے کر جلیانوالہ باغ کا قتل عام کیا۔ 1920ء میں عراق میں برطانوی استعمار کے خلاف عراقی عرب مزاحمت کاروں نے بھی امن کے نام پر دھوکہ کھالیا اور اسلحہ حوالے کرنے کے بعد گرفتاری اور قتل عام کا نشانہ بنے۔ 1948ء فلسطین کے شہر لد میں عرب مزاحمت کاروں کو صہیونی ملیشیا گروپوں نے امن معاہدے کے نام پر دھوکہ دے کر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا۔ لیکن ہتھیار ڈالنے کے بعد صہیونی گروپوں نے ان فلسطینی مزاحمت کاروں کو بے رحمانہ انداز میں شہید کیا۔
رواں برس جنوری میں اسرائیل نے مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی میں حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کیا اور قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ لیکن اسرائیل نے دوران جنگ بندی مخبری اور جاسوسی نیٹ ورک پھیلا کر مزاحمت کے اہم مراکز کے بارے معلومات حاصل کرنے کے بعد 18 مارچ کو اس معاہدے کی بدترین خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر جارحیت کا دوبارہ آغاز کردیا جو اب تک جاری ہے۔ حماس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ تجربہ دھرانے کی کوششیں جاری ہیں جس میں عرب ممالک بھی شریک ہیں۔