غزہ میں بھوک کے ڈیرے،اسرائیل کا پھر شہر خالی کرنیکا حکم،بمباری میں49شہید

غزہ/پیرس/تل ابیب/نیویارک/لندن:اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ کے علاقے شجاعیہ میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت کم از کم 40 فلسطینی شہید ہوگئے،جبکہ درجنوں افراد زخمی اور درجنوں لاپتا ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ شہر کے مشرقی مضافات میں ایک کثیر المنزلہ عمارت پر کیے گئے اس حملے میں 40 افراد موقع پرشہید جبکہ 80 کے قریب افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ طبی عملے کا کہنا ہے کہ قریبی مکانات بھی تباہ ہو چکے ہیں۔علاقے کے دیگر حصوں میں بھی اسرائیلی بمباری جاری رہی،جہاں مزید 9 فلسطینی شہید ہوئے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 18 مارچ کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد صرف تین ہفتوں میں 1500 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ جب کہ اکتوبر 2023ء سے اب تک 50,800 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ادھر اسرائیل نے غزہ کے رہائشیوں کو انکلیو کے کئی علاقوں سے انخلا کا حکم دیا ہے جس پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کو مستقل طور پر بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دوسری جانب، قطر، مصر اور امریکا کی حمایت سے جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں مگر اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ فرانسس کا البانیز نے پیرس میں ایک تقریب سے خطاب میں خبردار کیا ہے کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو اسرائیل تشدد جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو پر جنگی جرائم کے مقدمات کا خدشہ ہے، اس لیے وہ حملے جاری رکھ کر احتساب سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب درجنوں یہودی آباد کاروں نے جمعرات کی صبح قابض اسرائیلی فوج کی بھاری نفری کے ہمراہ مسجد اقصیٰ کے احاطے پر دھاوا بول دیا۔ یہ حملہ عبرانی ایسٹر کی نام نہاد چھٹی کے دوران یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں لانے،صہیونیوں کے درمیان یکجہتی اور ٹیمپل ماؤنٹ گروپوں کے تصادم کے مطالبات کے درمیان ہوا ہے۔

آباد کاروں نے مراکشی گیٹ سے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا،مسجد کے صحنوں میں خاص طور پر مشرقی حصے میں اشتعال انگیز دورے لگائے اور تلمودی رسومات ادا کیں۔قابض فوج نے بیت المقدس کے پرانے شہر کے اطراف اور مسجد اقصیٰ کے دروازوں پر اپنے فوجی اقدامات سخت کر دیے، شہریوں کے داخلے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔

دریں اثناء قابض اسرائیلی فوج نے غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کے مغرب میں ترقومیہ کراسنگ کے علاقے میں دیوار فاصل کے قریب سے 60 فلسطینی مزدوروں کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ کام کے سلسلے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

قابض فوج نے کراسنگ کے قریب ایک سخت گھات لگا کر مزدوروں کے ایک بڑے گروپ پر حملہ کیا جو اپنے کام کی جگہوں پر پہنچنے کے لیے دیوار عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں سخت حفاظتی اقدامات کے درمیان گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ مغربی کنارے میں مشکل معاشی حالات اور وسیع پیمانے پر بے روزگاری کے پیش نظر روزانہ سینکڑوں فلسطینی مزدور مقبوضہ علاقوں میں داخل ہونے کا سہارا لیتے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے اور انہیں ان کے بنیادی زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی قابض پالیسی کا حصہ قرار دیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قابض ریاست مزدوروں کے مشکل حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ہراساں کرنے اور سیکورٹی سے متعلق بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے فلسطینی مزدوروں کے خلاف ان بارہا ہونے والی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔

علاوہ ازیںفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں بغیر خوراک کے گزرنے والا ہر دن پٹی کو بھوک کے شدید بحران کی طرف دھکیل رہا ہے جس کے سنگین نتائج 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

ناکہ بندی اور بھوک کی وجہ سے لاکھوں شہری پہلے ہی بدترین حالات سے دوچار ہیں، یکم مارچ سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور غزہ کی ناکہ بندی مزید تباہی کا باعث بن رہی ہے۔مارچ کے اوائل میں جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد سے قابض اسرائیل غزہ کی پٹی میں انسانی امداد اور تجارتی سامان کے داخلے کو روک رہی ہے۔

انروا نے کہا کہ اس کی وجہ سے ضروری سامان میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ غزہ میں موجود خوراک کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔غزہ میں ایجنسی کے میڈیا اور کمیونیکیشن آفس کے ڈائریکٹر ایناس حمدان نے کہا کہ غزہ پر امدادی پابندی ان آبادی کے لیے اجتماعی سزا کی نمائندگی کرتی ہے، جنہوں نے 16 ماہ سے زائد عرصے کی تباہ کن جنگ کے دوران بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔

حمدان نے الجزیرہ نیٹ کو دیے گئے بیانات میں وضاحت کی کہ طبی سامان اور خوراک کی فراہمی ختم ہو رہی ہے۔ اس سے خوراک کی حفاظت اور صحت کی پہلے سے بگڑتی ہوئی صورتحال دونوں کے لحاظ سے انسانی بحران مزید گہرا ہو رہا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ بندی کی مدت کے دوران 19 جنوری 2025 ء سے مارچ کے اوائل تک انروانے غزہ کی پٹی میں تقریباً 1.7 ملین لوگوں کو خوراک کی امداد فراہم کی۔ادھرجمعرات کی صبح قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے 10 فلسطینی قیدیوں کو خان یونس کے شمال مشرق میں واقع ”کسوفیم” ملٹری سائٹ کے دروازے سے رہا کیا۔

مقامی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے قیدی طبی معائنے کے لیے وسطی غزہ کے دیر البلاح میں واقع الاقصیٰ ہسپتال پہنچے۔انہوں نے بتایا کہ رہا ہونے والے قیدیوں 66 سالہ نعیم محمد موسیٰ البرائی ،46 سالہ محمد عودہ محمود شاملی ،53 سالہ عماد عودہ حسین المصری ،34 سالہ محمد حاتم یوسف قاسم ،57 سالہ ہانی ابراہیم علی ابو سیف۔

ابو الحسن خلیفہ ، محمد حسن جمالی،69 سالہ الزویری ، 38 سالہ عبدالہادی برجس صابر دغمش ،62 سالہ محمد عبداللہ محمد القارا اور 64 سالہ سمیر عبدالرحمن عوض حماد شامل ہیں۔قابض فوج نے غزہ کی پٹی سے ہزاروں شہریوں کو قتل و غارت گری کی جنگ کے دوران گرفتار کیا اور ان میں سے سیکڑوں کو اب بھی جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔

رہائی پانے والے قیدیوں کی شہادتوں سے صہیونی جیلوں میں قابض ریاست کے مسلسل وحشیانہ تشدد کا پتہ چلتا ہے۔اسرائیلی اخبار اسرائیلی فضائیہ کا طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث لبنانی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا۔اسرائیلی اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے یا معلومات کے لیک ہونے پر کسی بھی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔

اسرائیلی حکام نے اس واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے، حادثے سے متعلق مزید معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔دوسری جانب اس حادثے میں اسرائیلی فوجی ڈرون فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہونے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ادھر حوثی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی ڈرون کو ضلع الجوف میں مار گرایا گیا ہے۔

غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ فرانس جون میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرسکتا ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا مقصد اسرائیل فلسطین تنازع پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اس اقدام کو حتمی شکل دینا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے اور ہم آنے والے چند مہینوں میں ایسا کریں گے۔ایمانوئل میکرون کا کہنا تھا کہ میں ایسا کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کررہا بلکہ ایسا کرنا ہی درست ہوگا۔

خبر رساں اداروں کے مطابق فلسطینی حکام نے کہا ہے کہ فرانسیسی صدر کا یہ بیان فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ اور دو ریاستی حل کے سلسلے میں درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔دوسری جانب اسرائیل کے اپاچی ہیلی کاپٹروں نے جنوبی لبنان کے قصبے یاطر میں تین گھروں کو نشانہ بنایا۔

لبنان کی سرکاری قومی خبر رساں ایجنسی نے اعلان کیا کہ اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے جنوبی قصبے یاطر میں متعدد مکانات کو نشانہ بناتے ہوئے انتباہی حملہ شروع کیا جب ان کے مالکان کو اسرائیل کی طرف سے انہیں بم سے حملے کی دھمکی دینے والی فون کال موصول ہوئیں جس سے مکینوں کو گھر خالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔

بعد ازاں ایک اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے ان گھروں پر فضائی حملے شروع کیے۔ایک اسرائیلی ڈرون نے جنوبی لبنان کے قصبے رمیہ میں سرکاری سکول کے اطراف میں بھی بمباری کی۔

ادھریورومیڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے کہا ہے کہ غزہ شہر کے مشرق میں واقع شجاعیہ محلے میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے کیا جانے والا ہولناک قتل عام فلسطینی نسل کشی کے جرم کے تسلسل کی نمائندگی کرتا ہے جو فلسطینیوں کے جینے کے حق سے انکار کا واضح مظہر اور غزہ میں مکمل طور پر ان کی موجودگی کو ختم کرنے کا اعلانیہ اظہار ہے۔

یورومیڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ اس کی فیلڈ ٹیم نے دستیاب ابتدائی معلومات کی بنیاد پر بتایا کہ بدھ 9 اپریل 2025ء کی صبح اسرائیلی جنگی طیاروں نے سینٹ بدریس کے پرہجوم علاقے شوجا میں انتہائی تباہ کن بموں کا استعمال کرتے ہوئے متعدد فضائی حملے کیے۔

ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً دس مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ ان کا ملبہ ان کے مکینوں کے سروں پر آگرا جس کے نتیجے میں 35 سے زائد شہری موقع پر ہی شہید ہوگئے جب کہ 50 سے زائد زخمی ہوئے۔

ابتدائی معلومات کے مطابق درجنوں اب بھی ملبے تلے لاپتہ ہیں جہاں سول ڈیفنس کے عملے نے ابتدائی آلات کا استعمال کرتے ہوئے تباہ شدہ مکانات کے ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے متعدد افراد کو بچایا مگر کئی افراد کا پتا نہیں چل سکا۔

یورومیڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے کہا کہ اس کی ٹیم نے تباہ شدہ مکانات کے ملبے تلے پھنسے لوگوں کی اپیلوں کی نشاندہی کی اور ان کے اہل خانہ سے امدادی ٹیموں کو ان کے مقامات پر بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

یہ تلاش قدیم طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے سادہ ہینڈ ٹولز پر انحصار کرتے ہوئے کی گئی حالانکہ ملبے تلے دبے لوگوں کو زندہ نکالنے اور ٹنوں ملبے کو ہٹانے کیلئے بھاری مشینری کی ضرورت تھی مگر قابض فوج نے انہیں کسی قسم کی مشینری لانے کی اجازت نہیں دی جس کے نتیجے میں بہت سے ملبے تلے دبے افراد دم توڑ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں نے شجاعیہ محلے میں ایک اور مکان پر بمباری کی، جس میں پانچ شہری شہید اور کئی زخمی ہوئے۔یورومیڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر کی مانیٹرنگ کے مطابق اسرائیلی عسکری ذرائع نے پریس بیانات میں قتل عام کو جائز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوج نے ”حماس کے ایک فوجی رہنما” کو قتل کرنے کی کوشش کی جس کے لیے اجتماعی قتل عام کیا گیا۔

قابض فوج بار بار حماس اور دوسرے فلسطینی مزاحمتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی آڑ میں معصوم اور بے گناہ شہریوں کا بے دریغ اور اجتماعی قتل عام کررہی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے برطانیہ میں اپنے خلاف عائد پابندی کو چیلنج کرتے ہوئے قانونی درخواست دائر کر دی۔

لندن میں قائم ایک قانونی فرم نے اعلان کیا کہ انہوں نے حماس پر عائد پابندی ہٹانے کے لیے برطانوی وزارت داخلہ کو ایک باضابطہ درخواست جمع کرائی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کو آزادی، علاقائی خودمختاری، قومی اتحاد اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔

قانونی فرم نے مؤقف اختیار کیاکہ غیر ملکی قبضے کے خلاف تمام دستیاب ذرائع، بشمول مسلح جدوجہد، بین الاقوامی قانون میں واضح طور پر جائز اور اخلاقی طور پر درست ہیں۔فرم کا بتانا ہے کہ یہ درخواست حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق کی ہدایت پر جمع کروائی گئی ہے۔

وکلا کا کہنا ہے کہ حماس پر پابندی عائد کر کے برطانیہ فلسطینی عوام کو اپنے دفاع کے حق سے محروم کر رہا ہے۔برطانیہ نے 2001ء میں حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈزکو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جبکہ 2021ء میں اس پابندی کو پوری تنظیم پر لاگو کردیا تھا۔

قانون کے تحت برطانیہ میں کسی کالعدم تنظیم کی رکنیت رکھنا، حمایت کرنا یا اس کے حق میں بیانات دینا جرم تصور کیا جاتا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ حماس کی برطانیہ میں موجودگی یا سرگرمی سے برطانیہ کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں اس لیے یہ پابندی غیر مناسب ہے۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس پر پابندی عائد کرنا برطانیہ کی جانب سے یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق سمیت برطانیہ کی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ جنگ اور نیتن یاہو حکومت کی معاشی پالیسیوں سے اسرائیلی عوام شدید معاشی دباؤ کا شکار ہوگئے۔ لاکھوں اسرائیلی خاندان خیراتی اداروں کے کھانوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن مائیر کوہن نیتن یاہو حکومت پر پھٹ پڑے۔مائیر کوہن کے مطابق نیتن یاہو حکومت کی معاشی پالیسیوں سے مہنگائی عروج پر پہنچ گئی ہے، خیراتی اداروں کے سامنے ہزاروں شہریوں کی قطاریں معمول کی بات بن چکی ہیں۔

مائیر کوہن کا کہنا تھا کہ حکومتی غفلت کے سبب کئی اسرائیلیوں کو ایک وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں۔ایک اسرائیلی خیراتی ادارے کے مطابق اسرائیل میں ہر تین خاندانوں میں سے ایک انتہائی غربت کی زندگی گزار رہا ہے۔