انسانی تہذیب کی تاریخ گواہ ہے کہ علم و دانش ہی وہ بنیاد ہے جس پر قوموں کی ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور کتابیں علم و فہم، شعور و آگہی، دانش و حکمت اور تہذیب و تمدن کی امین ہوتی ہیں۔ جن معاشروں نے کتابوں کو اپنایا، وہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور جو کتاب سے دور ہو گئے، وہ زوال کا شکار ہو گئے۔ کتاب ایک ایسا چراغ ہے جو ذہنوں کو منور کرتا ہے، سوچوں کو جِلا بخشتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں راستہ دکھاتا ہے۔ ایک اچھی کتاب انسانی ذہن کو وسعت دیتی، سوچنے کا نیا انداز سکھاتی، ماضی، حال اور مستقبل کی سمت کا تعین کرتی ہے۔
انسانی تاریخ میں جتنی بھی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، ان میں کتابوں کا کردار بنیادی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ علم، تحقیق اور مطالعے کو اپنی ترقی کا زینہ بنایا، جبکہ پسماندہ معاشروں میں کتاب اور قاری کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا گیا۔ بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ کتاب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب گھروں میں کتابیں زیورِ فخر سمجھی جاتی تھیں، لائبریریاں آباد ہوتی تھیں اور علم و دانش کی محفلیں سجی رہتی تھیں، لیکن آج موبائل فون، سوشل میڈیا اور سطحی معلومات نے گہرے مطالعے کی روایت کو کمزور کر دیا ہے۔
موبائل اسکرین کی وجہ سے دنیا بھر میں کتاب بینی کا رجحان متاثر ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے مگر اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کو کتابوں کے فروغ کے لیے استعمال کیا، آن لائن لائبریریاں بنائیں، ڈیجیٹل کتابوں کو عام کیا اور تعلیمی نظام میں مطالعے کو بنیادی اہمیت دی، لیکن ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں کتاب لکھنے والے بھی کم ہوتے جا رہے ہیں اور پڑھنے والوں کی تعداد تو مزید کم ہو رہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی کتابوں کی دنیا سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ درحقیقت ایک زندہ معاشرے کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے۔ یہی سوچ کر میں نے اپنی کتاب ”سرِ نہاں” کو تحریر کیا، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
”سرِ نہاں” دراصل تعمیری، فکری، سماجی اور نظریاتی موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد قارئین کو غور و فکر کی دعوت دینا اور انہیں ایسی فکری غذا مہیا کرنا ہے جو ان کی سوچ کو مثبت سمت میں لے جائے۔ سرِ نہاں میں موجود مضامین کئی اہم جہتوں پر محیط ہیں۔ ان میں سے کچھ مضامین ذاتی اور انفرادی اصلاح پر مبنی ہیں، جو قاری کو بتاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی کیسے لا سکتا ہے، ناکامیوں کو کامیابی میں کیسے بدل سکتا ہے اور زندگی کے اتار چڑھاو کا سامنا کیسے کر سکتا ہے۔ معاشرتی اصلاح بھی کتاب کا ایک اہم موضوع ہے کہ کس طرحہم میںسے ہر ایک معاشرے میںبہتری لاسکتا ہے۔ معاشرے میں پھیلی بے راہ روی، فکری انتشار اور اخلاقی زوال کے اسباب اور ان کے حل پر کتاب میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے اثرات پر بھی لکھا گیا ہے کہ یہ ہمارے خیالات، جذبات اور طرزِ زندگی کو کس حد تک قابو میں لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ، کتاب میں دینی مدارس اور عصر حاضر کے تقاضوں، انتہا پسندی اور اعتدال پسندی، الحاد، سیکولر ازم اور لبرل ازم جیسے اہم موضوعات پر مدلل اور غیر جانبدارانہ لکھا گیا ہے۔ میری پوری کوشش رہی ہے کہ کتاب کی زبان سادہ اور عام فہم ہو، انداز مدلل اور منطقی ہو اور ہر مضمون قارئین کو غور و فکر پر مجبور کرے۔
حال ہی میںہمارے دوست عبدالستار اعوان کی کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ عبدالستار اعوان ایک کہنہ مشق صحافی، کالم نگار، مصنف اور دانشور ہیں، جو ہمیشہ فکر انگیز اور عمیق تحریریں لکھتے ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ”اوراقِ زندگی” ایک منفرد نوعیت کی تصنیف ہے، جس میں مختلف شعبہ جات کی 14 معروف اور نامور شخصیات کی خودنوشت شامل ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف سوانحی خاکوں کا مجموعہ ہے، بلکہ یہ زندگی کے نشیب و فراز، کامیابی کے اصول اور عملی تجربات کا نچوڑ بھی ہے۔ ”اوراقِ زندگی” میں شامل شخصیات نے اپنی زندگی کے تجربات، مشکلات، کامیابیوں اور ناکامیوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب میںوہ راز پوشیدہ ہیں، جو زندگی کے سفر میںرہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کے لیے صرف خواب دیکھنا کافی نہیں، بلکہ مسلسل جدوجہد، صبر اور محنت بنیادی شرط ہے۔ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے، جو انہیں عملی زندگی میں کامیابی کے اصول سکھاتی ہے۔
”سرِ نہاں” اور ”اوراقِ زندگی” جیسی کتابوں کی اشاعت ایک خوش آئند عمل ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم بے مقصد مصروفیات سے وقت نکال کر کتاب اور مطالعے کی طرف متوجہ ہوں گے؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل فکری پختگی حاصل کرے، مثبت سوچ اپنائے اور تعمیری نظریات کے ساتھ آگے بڑھے تو ہمیں کتاب کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں میں، اسکولوں میں اور معاشرتی سطح پر کتاب کلچر کو عام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں میں کہانیاں پڑھنے اور سنانے کی روایت کو بحال کرنا ہوگا اور انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ علم محض ڈگریاں لینے کا نام نہیں، بلکہ مطالعہ، تحقیق اور غور و فکر ہی اصل علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کتاب بینی کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جاتا ہے۔ وہاں بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی مطالعے کا شوق پیدا کیا جاتا ہے، لائبریری کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور حکومتیں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔
کتاب بینی کے فروغ میں حکومت اور تعلیمی اداروںکو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے عوامی لائبریریوں کو فعال کرے اور ایسے منصوبے شروع کرے جن کے ذریعے ہر شہری کو آسانی سے معیاری کتابیں میسر آ سکیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں کتاب بینی کے مقابلے، مطالعاتی سرگرمیاں اور کتاب میلوں کا انعقاد ہونا چاہیے، تاکہ طلبہ میں مطالعے کا شوق پیدا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر سال بڑے پیمانے پر کتاب میلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی چند شہروں میں کتاب میلے لگتے ہیں، مگر ان کی تعداد اور معیار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ملک میں عوامی لائبریریوں کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور جو موجود ہیں، وہ بھی مناسب دیکھ بھال اور جدید سہولیات سے محروم ہیں۔ اگر ہر شہر اور ہر تعلیمی ادارے میں معیاری لائبریریاں قائم کی جائیں تو یہ نوجوان نسل کیلئے قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہر کامیاب انسان کی زندگی میں کتابوں کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ تاریخ کے عظیم رہنماوں، مفکرین اور دانشوروں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ سب مطالعے کے رسیا تھے۔ اگر ہم بھی کامیابی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں کتابوں سے رشتہ جوڑنا ہوگا۔ کتاب سے دوستی درحقیقت زندہ رہنے کا ہنر سکھاتی ہے اور یہی ہنر ہمیں ایک بہتر قوم بنا سکتا ہے۔