کراچی:حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران گردشی قرضہ 2384 ارب روپے تک محدود کرنے میں کامیاب رہی ہے، تاہم پاور سیکٹر کو اب بھی اپنی نااہلی، بجلی چوری اور بلوں کی عدم ریکوری کی وجہ سے 158 ارب روپے کے نقصانات کا سامنا ہے۔
وزارت توانائی کے مطابق 158ارب روپے میں سے 82ارب روپے کے نقصانات صرف حیدرآباد اور سکھر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے کیے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اپنی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی سے ایک طے شدہ معاہدے کی وجہ سے حیسکو اور سیپکو کے بورڈز کو تبدیل نہیں کر رہی ہے۔ اس طرح ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ بنیادوں پرقیمتوںمیں ہونے والا اضافہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نااہلی اور پاور ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ضائع ہوگیا ہے۔
پاور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق جون 2024 میں گردشی قرضہ 2.393 ہزار ارب روپے تھا، جو کہ حکومت کی جانب سے 20 ارب روپے کی ادائیگی کے باجود دسمبر 2024ء تک گردشی قرض میں صرف 9 ارب روپے کی کمی ہوئی اور یہ 2.384 ہزار ارب روپے ہوگیا۔
اس طرح پہلی ششماہی کے دوران گردشی قرض میں 11 ارب روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ آئی ایم ایف نے 461 ارب روپے تک کے اضافے کی اجازت دی تھی، اس طرح پاور ڈویژن نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پاور کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے پہلی ششماہی کے دوران 106 ارب روپے کا نقصان ہوا، جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے جبکہ بلوں کی عدم ریکوری کی وجہ سے 52 ارب روپے کا نقصان ہوا، اس طرح مجموعی طور پر 158 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت نے ماہانہ اور سہ ماہی بنیادوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 67 ارب روپے اضافی جمع کیے جبکہ 140 ارب روپے دیگر ایڈجسٹمنٹس کی مد میں وصول کیے گئے۔ترجمان وزارت توانائی کے مطابق حیسکو اور سیپکو کے نقصانات 158 ارب روپے میں سے 82 ارب روپے رہے، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 28 ارب روپے زیادہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم حیسکو اور سیپکو میں بھی آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی کیلیے کوشش کر رہے ہیں، واضح رہے کہ حکومت تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے بورڈز کو تبدیل کرچکی ہے، لیکن پیپلزپارٹی سے معاہدے کی وجہ سے ابھی تک حیسکو اور سیپکو کے بورڈز کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔