(ابوصوفیہ چترالی)
جمعرات کو فلسطینی مزاحمت کاروں نے 4 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ہلال احمر کے حوالے کر دیں۔ یہ چاروں اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے تھے۔ معاہدے کے مطابق ان کے بدلے میں آج ہفتے کو 628 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں 50 ایسے قیدی شامل ہیں جو عمر بھر کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ 47 ایسے قیدی ہیں جو شالیط/ وفا الاحرار معاہدے کے تحت رہا ہوئے تھے اور دوبارہ گرفتار ہو گئے اور 445 قیدی غزہ سے ہیں، جنہیں 7 اکتوبر کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، اس کے علاوہ غزہ کی تمام خواتین اور 18 سال سے کم عمر کے قیدی بھی شامل ہیں۔
رہا ہونے والوں میں سب سے نمایاں نام کتائب القسام کے بانی اور عظیم مجاہد رہنما عبدالناصر عیسیٰ کا نام بھی شامل ہے، جو 32 سال سے زائد عرصہ اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں سے 29 سال مسلسل جیل میں گزارے ہیں اور ان پر عمر بھر کی سزا دو بار اور 7 سال اضافی سزا کی لاگو ہے۔
عبدالناصر عیسیٰ کی تحریک مزاحمت کے لیے اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل نے 2011ءمیں وفا الاحرار/ شالیط معاہدے میں حماس کی جانب سے زور لگانے کے باجود مستثنیٰ کردیا تھا۔ وہ 1995ءمیں گرفتار ہوئے تھے اور عسقلان جیل میں اپنے کمرے سے سرنگ کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ عیسیٰ کے بارے میں فلسطین میں مشہور ہے کہ یہ وہ قیدی ہے جس نے جیل کا محاصرہ کیا مگر خود کبھی محاصرے میں نہیں آیا۔
عبد الناصر عیسیٰ 1968ءمیں نابلس کے بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، جو طیرہ دندن (لد کے شمال مشرق) سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ گزین خاندان سے ہیں۔ عبدالناصر نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز عوامی احتجاجات اور مظاہروں میں شرکت سے کیا اور 1982ءمیں لبنان کے جنوب میں ’صبرا‘ اور ’شاتیلا‘ قتل عام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی گولیوں کا شکار ہوگئے۔ بلاطہ کی مساجد میں آنا جانا کرنے کے دوران وہ اخوان المسلمون سے جڑ گئے۔ انہیں پہلی بار 1985ء میں گرفتار کیا گیا، پھر 1986ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اس کے بعد تیسری بار انہیں بم تیار کرنے، مولوٹوف بم بنانے اور انہیں اسرائیلی فوج کی گشتی گاڑیوں پر پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 1990ء، 1991ء کے دوران نابلس کی مرکزی جیل میں انہوں نے اسلامی تحریک کے قیدیوں کے لیے امیر کی حیثیت سے کام کیا، جس میں حماس اور اِسلامی جہاد کے قیدی شامل تھے۔
1994 میں رہائی کے بعد انہوں نے حماس کے عسکری دھڑے کتائب عزالدین القسام میں شمولیت اختیار کی اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے محمدضیف سے رابطہ کیا تاکہ مغربی کنارے میں القسام کی بنیاد رکھی جائے۔ مغربی کنارے میں قسام بریگیڈ کے وہی بانی شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد عبدالناصر عیسیٰ غزہ اور مغربی کنارے آتے جاتے رہے اور وہاں انہوں نے یحییٰ عیّاش سے ملاقات کی، جن سے انہوں نے عسکری تجربات حاصل کیے، جس کی وجہ سے اسرائیلی حکام نے انہیں انتہائی خطرناک مطلوب شخص قرار دیا۔ انہیں 1995ء میں دوبارہ گرفتار کیا گیا، ان پر رمات گان اور رمات اشکول بم دھماکوں میں شرکت کا الزام عائد کیا گیا، جن میں 12 اسرائیلی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
انہیں عمر بھر کی سزا دو بار اور سات سال کی اضافی سزا سنائی گئی اور اس دوران وہ طویل عرصے تک انفرادی حراست میں رہے، جہاں انہیں ملاقاتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ قید کے دوران عبدالناصر عیسیٰ نے اپنے والدین کو کھودیا۔ اُن کے والد 2006ء میں وفات پا گئے اور ان سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی، جبکہ ان کی والدہ 2017ء میں وفات پا گئیں۔ قید کے دوران وہ قائدانہ کردار ادا کرتے رہے۔ عبدالناصر عیسیٰ نے 2005ء میں جیل میں حماس کی پہلی اعلیٰ قیادت کمیٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر منتخب ہوئے۔
2015 ءسے 2017ء تک اُنہیں جیلوں میں حماس کی اعلیٰ کمیٹی کا جنرل کوآرڈی نیٹر اور نائب صدر منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2019ء سے 2021ء تک انہوں نے سیاسی کمیٹی میں اہم ذمہ داری ادا کی اور جیلوں میں تعلیمی منصوبوں کی نگرانی بھی کی۔ تعلیمی اور ثقافتی سفر میں عبدالناصر عیسیٰ نے 2007ء میں عبرانی یونیورسٹی سے سیاسیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی، تاہم جیل میں سزا اور تعلیم میں رکاوٹوں کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے میں 7 سال لگے۔ قیدیوں کے لیے عبدالناصر عیسیٰ نے ایک تعلیمی مرکز بھی قائم کیا، جو فکری سرگرمیوں، سائنسی ترقی اور مقاومت کے نظریے کو فروغ دینے پر مرکوز تھا اور اسی مرکز سے وہ حماس کی اسیر تحریک کے جریدے ’حریتنا‘ کے مدیر بھی رہے۔ انہوں نے ’مقاومة الاعتقال‘ کے عنوان سے مشہور کتاب لکھی، جسے مروان البرغوثی اور عائدغلمہ کے ساتھ تین جلدوں میں تیار کیا، جس کا پہلا حصہ 2018ء میں شائع ہوا۔
تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے 2009ء میں انہوں نے ڈیموکریسی اسٹڈیز میں ماسٹر کی ڈگری شروع کی، لیکن اسرائیلی جیل انتظامیہ نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اُن کی تعلیم کا اندراج منسوخ کردیا، اس کے باوجود 2014ء میں انہوں نے القدس یونیورسٹی سے اسرائیلی اسٹڈیز میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 2022ءمیں عبدالناصر عیسیٰ نے اپنی کتاب ’وفق المصادر‘ شائع کی جو 2018ء سے شروع ہونے والی ایک سلسلے کی پانچویں کتاب ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مقالات حرة اور دراسات حرة جیسی کتابیں بھی لکھیں اور متعدد تحقیقی مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ عبدالناصر عیسیٰ مجموعی طور پر 57 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے کہ آج رہا ہوجائیں گے۔
اِس کے علاوہ قسامی اسیر حمزہ کالوتی کو بھی رہا کیا جائے گا، جنہیں ستمبر 2000ء میں اسرائیلی افواج نے 2 سال مسلسل تعاقب کے بعد گرفتار کیا تھا۔ وہ عملات الثار المقدس (مقدس انتقام کی کارروائیوں) میں شرکت کے جرم میں گرفتار ہیں، جن میں اسیر حسن سلامہ کے ساتھ مل کر انجینئر یحییٰ عیاش کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے تباہ کن کارروائیاں کی گئی تھیں۔
قیدیوں کی ساتویں قسط میں رہائی پانے والوں میں ایک اور اہم شخصیت عثمان بلال بھی ہیں، جو قسام نابلس سیل کے رہنما اور عبدالناصر عیسیٰ کے دائیں ہاتھ تھے۔ انہیں اسرائیلی حکام نے پانچ مرتبہ عمرقید کی سزا (125 سال) دی تھی اور انہوں نے 25 سال سے زیادہ وقت قید میں گزارا ہے۔ رہائی پانے والوں میں ایک اور اہم قسامی رہنما راغب علیوی بھی ہیں جو 2015ءمیں ایتمار میں ہونے والی کارروائی کے قائد تھے، جس کے نتیجے میں 2 اسرائیلی آبادکار ہلاک ہوئے تھے۔
اسی طرح قسامی اسیر عمارالزبن بھی رہا ہو رہے ہیں، جنہیں 26 مرتبہ عمرقید اور 25 سال اضافی سزا (675 سال قید) سنائی گئی تھی۔ انہیں 1997ء میں یروشلم میں قسام کی جانب سے انجام دی جانے والی منحی یہودا اور بن یہودا حملوں کی ذمہ داری کے جرم میں سزا دی گئی۔ علاوہ ازیں قسامی اسیر ہیثم اسماعیل البطاط بھی شامل ہیں، جنہیں جنوری 2005ءمیں ایک مسلح تصادم کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اسرائیلی حکام نے انہیں 3 مرتبہ عمرقید (75 سال) کی سزا سنائی، کیونکہ وہ فدائی جانباز محمدالبطاط اور خالدالطل کو تیار کیا تھا، جنہوں نے بیرالسبع میں تباہ کن کارروائی کی تھی۔
جمعرات کو مزاحمت نے 4 اسرائیلی اسیروں کی لاشوں کو حوالے کیا، اس کے بدلے میں اسرائیلی حکومت نے غزہ سے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار ہونے والے بچوں اور خواتین میں سے نصف کو رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ساتھ ہی مزاحمت کار آج ہفتے کو 2 اسرائیلی اسیران ہشام سید اور ویرا مانگیستو (جو 2014ءسے قید ہیں) کو رہا کریں گے، اس کے بدلے اسرائیل شالیط معاہدے کے تحت رہا ہونے والے 46 اسیروں کو دوبارہ رہا کرے گا۔ البتہ انہیں غزہ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
آج ہی مجاہدین 4 اسرائیلی زندہ قیدیوں کو بھی رہا کریں گے، اس کے بدلے 444 فلسطینی اسیروں کو رہا کیا جائے گا، جنہیں 7 اکتوبر 2023ءکے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ عمرقید کی سزاو¿ں والے 48 اسیروں کو رہا کیا جائے گا۔ یکم مارچ کو مجاہدین 4 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں حوالہ کریں گے، اس کے بدلے میں اسرائیل غزہ سے گرفتار باقی تمام بچوں اور خواتین کو رہا کرے گا۔