گرین کارپوریٹ لائیو اسٹاک سے معاشی خوشحالی کا عزم (محمد عبداللہ حمید گل)

پاکستان میں زرعی ترقی کیلئے Green Corporate Livestock Initiative (GCLI) کو جنوری 2024 میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ GCLI کا مقصد پاکستان کے لائیو اسٹاک سیکٹر میں فوڈ سکیورٹی اور درآمدات میں کمی سمیت دیگرا ہم چیلنجز سے نمٹنا ہے جس کیلئے جدید ٹیکنالوجیز اور طریقے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ GCLI کا مقصد اس شعبے میں جدت لاتے ہوئے سیکسڈ سیمن لیب ان وٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) لیبز اور اینیمل جینیٹک ریسرچ سینٹر کے ذریعے پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانا مویشی پال کسانوں کو بااختیار بنانا ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنا کر قومی فوڈ سکیورٹی اور اقتصادی خوشحالی میں حصہ ڈالنا ہے۔ GCLI روایتی فارمنگ اور جدید طریقوں کے درمیان فرق کو کم کر رہا ہے۔
پاکستان میں لائیو اسٹاک کی مجموعی تعداد 102.2ملین گائے اور بھینسوں 119.7 ملین چھوٹے جگالی کرنے والے جانوروں اور 2065 ملین پولٹری پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں 60فیصد آبادی زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ ہے 90 فیصد مویشی چھوٹے کسانوں کی ملکیت ہیں۔ لائیو اسٹاک سیکٹر کا قومی جی ڈی پی میں حصہ 14.36فیصد ہے اور زرعی جی ڈی پی کا حصہ 62 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شعبہ ہے جس میں مالی سال2025 کی پہلی سہ ماہی میں 4.9فیصد ترقی ہوئی جبکہ ماہی گیری کا قومی جی ڈی پی میں صرف ایک فیصد حصہ ہے اس کے باوجود اس کی سالانہ برآمدات 496 ملین ڈالر تک پہنچتی ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 65.8 بلین لیٹر دودھ پیدا ہونے کے باوجود ڈیری سیکٹر کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اوسط دودھ کی پیداوار فی جانور صرف چھ لیٹر ہے جو بھارت کے 8.5 لیٹر چین کے 20 لیٹر امریکا کے 30 لیٹر کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اگر اس فرق کو کم کیا جائے اور ہر جانور کی دودھ کی پیداوار میں صرف ایک لیٹر اضافہ کیا جائے تو جی ڈی پی میں ایک فیصداضافہ ممکن ہے جو کہ 4.4بلین ڈالر کی برآمدی آمدنی کے برابر ہوگا۔ لائیو سٹاک مصنوعات (گوشت، دودھ اور چمڑا) کی بڑھتی ہوئی مانگ اس شعبے کو سرمایہ کاری کیلئے انتہائی پرکشش بنا رہی ہے تاہم 90 فیصد پاکستانی کسان چھوٹے فارمرز پر مشتمل ہیں جو کم دودھ دینے والے جانور پالتے ہیں اور جدید فارمنگ کے طریقوں تک رسائی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے GCLIنجی سرمایہ کاروں حکومتی اداروں ماہرین صنعتوں اور چھوٹے کسانوں کے ساتھ مل کر ایک جدید لائیو سٹاک ماحولیاتی نظام تشکیل دے رہا ہے جو کسانوں کو خودمختار بنانے پیداوار بڑھانے اور پاکستان کیلئے ایک خوشحال اور پائیدار مستقبل کی راہ ہموار کرے گا۔
GCLIنے نجی سرمایہ کاروں کے تعاون سے رکھ غلاماں (بھکر) میں ایک ہزار ایکڑ زمین کو جدید لائیو اسٹاک فارمنگ کیلئے تیار کیا ہے۔ یہاں 2800 سپیریئر نسل کے مویشی پالے جائیں گے۔ جدید اینیمل شیڈز جدید انفراسٹرکچر اور افزائشِ نسل کیلئے IVF لیب قائم کی جائے گی۔ کلور کوٹ (بھکر) میں 741ایکڑ پر 2400مویشیوں پر مشتمل ڈیری فارم تیار کیا جا رہا ہے۔ جگجیت پور (بہاولپور) میں4200 ایکڑ صحرائی زمین کو جدید لائیو سٹاک فارمنگ حب میں تبدیل کیا جا رہا ہے جہاں 30 ہزار مویشی رکھے جائیں گے۔ GCLI پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے حکومتی لائیو سٹاک فارمز کی بحالی پر بھی کام کر رہا ہے۔ اس اقدام میں 30 سالہ لیز کے تحت لائیو سٹاک انفراسٹرکچر کو جدید بنانا شامل ہے۔ Grass Root Incentivised Dairy Development (GRIDD) اس وقت 40 اضلاع میں کام کر رہا ہے۔ اب تک 25 ہزارکسان GRIDD پروگرام میں رجسٹر ہو چکے ہیں۔ خواتین کو سپورٹ کرنے کیلئے 1300 خواتین کو لائیو سٹاک فارمرز اور پانچ خواتین کو دودھ جمع کرنے والے مراکز کی ایجنٹس کی تربیت دی گئی ہے۔ مویشیوں کی افزائشِ نسل کے طریقوں کو جدید بنانے اورمویشیوں کی جینیاتی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے نیشنل HERD ٹرانسفار میشن مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اوکاڑہ میں ایک جدید ترین IVF لیبارٹری قائم کی گئی ہے۔ ایس ٹی جینیٹکس کے ساتھ شراکت داری میں لیبارٹری سالانہ پانچ لاکھ سیڈڈ سیمین اسٹراوز تیار کرے گی۔ یہ سالانہ 30 ہزار ایمبریوز پیدا کرنے کے قابل آئی وی ایف لیبارٹری ہے۔ کسان اپنے مویشیوں کو لیبارٹری میں تین ماہ تک رکھ سکتے ہیں۔ سیڈڈ سیمین اور IVF ٹیکنالوجیز کا ضم پاکستان میں مویشیوں کی افزائشِ نسل اور جینیاتی بہتری کے ایک نئے دور کا آغاز ہے جس سے کسانوں اور قوم دونوں کیلئے خوشحال مستقبل کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔ آزی کھلی اور اچائی نسلیں خیبر پختونخوا کے جانور پالنے کے محکمے سے اوکاڑہ میں افزائش نسل کے تحفظ کیلئے حاصل کی گئی ہیں۔
29 اپریل 2024 کو قومی ٹیک اور ٹریس ایبلٹی ڈرائیو کا آغاز بھی کیا گیا جو ایک آن لائن ایپلی کیشن سے منسلک ہے جہاں کسان اپنے مویشیوں کو رجسٹر کرا سکتے ہیں۔ ٹیگنگ سے کسانوں کو ہر جانور کی صحت افزائشِ نسل اور پیداوارکے تفصیلی ریکارڈز کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ 86 ہزار سے زائد مویشیوں کو ٹیگ کیا جا چکا ہے اور 11ہزار سے زائد مراکز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ مویشیوں کو بیماریوں سے بچانے کیلئے جامع بیماری کنٹرول مہم کے تحت ایک معروف امریکی ادویاتی کمپنی نووارٹس کے ماہرین کو مدعو کیا گیا تاکہ جدید ترین ویکسین پیداوار کا مرکز قائم کرنے میں مدد کی جائے۔ مقامی پیداوار میں اس اضافے سے 158 ملین خوراکوں کی کمی کو پورا کرنے اور ملک بھر میں بیماریوں کے کنٹرول کے اقدامات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ماہی گیری ایک اہم اقتصادی اثاثہ ہے۔ 2023 میں پاکستان نے تقریباً 0.665ملین ٹن سمندری مچھلی کی کھیپ ریکارڈ کی۔ عالمی سطح پر پاکستان ماہی گیری کی پیداوار میں 33 ویں اور مچھلی کی برآمدات میں 46 ویں نمبر پر ہے۔ ماہی گیری کا شعبہ ملک کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 0.87فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ 2023 میں دریائے سندھ اور مختلف جھیلوں سمیت اہم پانی کے ذخائر سے 0.309 ملین میٹرک ٹن مچھلی پیدا ہوئی۔ ماہی گیری جی ڈی پی کا تقریباً 0.4 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور تقریباً چار لاکھ ملازمتیں مہیا کرتی ہے۔ ماہی پروری کے شعبے کی مقابلے کی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے 2024/25 کے بجٹ میں اہم ٹیکس ریلیف اقدامات متعارف کرائے گئے۔ مچھلی کے سیڈ پر ڈیوٹی 37 فیصد سے کم کرکے 30.5فیصد، شرمپ فیڈ 60 فیصد سے کم کرکے 30.5 فیصد اور مچھلی اور شرمپ کے بریڈ سٹاک پر 60 فیصد سے کم کرکے 30.5 فیصد کر دیا گیا۔ ماہی پروری کی مصنوعات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 50 فیصد سے کم کرکے 28.5 فیصد کر دی گئی۔ ملک بھر میں کیج فش فارمنگ کو فروغ دیا گیا۔ فی الحال 1750کیجز کو ذخیرہ کیا جا رہا ہے جسے جون 2025تک بڑھا کر پانچ ہزار کرنے کا منصوبہ ہے۔ جی سی ایل آئی کی قابلِ ذکر کامیابیوں میں سے ایک پاکستان کی پہلی میرین اینڈ ان لینڈ ایکوا کلچر پالیسی آبی زراعت اور ماہی پروری کی ترقی کیلئے جامع قومی فریم ورک اور حکمت عملی فراہم کرتی ہے اورشعبے کو جدید بنانے کی جانب ایک تاریخی قدم ہے۔