کیلی فورنیا :امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی خوفناک آگ پر بالآخر 3 ہفتوں بعد قابو پالیا گیا۔کیلیفورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق آگ سے 37,000 ایکڑ سے زیادہ رقبہ اور 10,000 سے زائد گھر جل گئے جس سے تقریباً 30 افراد ہلاک اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہوگئے۔
آگ سے نقصانات کا تخمینہ 250 سے 275 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے۔7 جنوری کو لگنے والی آگ کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے، تاہم ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں اور خشک سالی نے اس خطرناک صورت حال کو جنم دیا ہے۔لاس اینجلس کے میئر کیرن باس نے کہا ہیکہ بحالی کا عمل تیز کیا جا رہا ہے تاکہ متاثرہ افراد جلد از جلد اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آتش زنی کے متعدد واقعات سے بھی نمٹنا پڑا اور حکام نے آتش زنی کے الزام میں کم از کم 8 افراد کو گرفتار کیا۔ان افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں درختوں، جھاڑیوں، پتوں اور کچرے کو آگ لگائی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق 14 جنوری کی شام ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا جس نے مبینہ طور پر کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگائی تھی۔لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے مطابق خاتون نے اعتراف کیا کہ وہ آگ لگانے اور تباہی پھیلانے سے لطف اندوز ہوتی تھی۔
امریکی میڈیا کے مطابق اسی روز ایک اور شخص کو درختوں کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ جلتے ہوئے پتوں کی خوشبو پسند کرتا ہے۔12 جنوری کو ایک اور مشتبہ شخص کو شمالی ہالی وڈ میں آتش زنی کے پرانے وارنٹ پر گرفتار کیا گیا، اس پر باربی کیو لائٹر کا استعمال کرتے ہوئے آگ لگانے کا الزام تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ کیلیفورنیا میں جنگلات میں لگنے والی آگ کے 95 فیصد واقعات انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، چاہے وہ آتش زنی ہو، گرے ہوئے بجلی کے تار ہوں یا غیر محتاط آتش بازی۔یہ واقعات بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنتے ہیں۔