زندگی کی آزمائشیں، صبر اور شکر کا گم ہوتا سبق

سجاد سعدی۔ کراچی
زندگی ایک خوبصورت مگر پیچیدہ سفر ہے، جس میں خوشی اور غمی دونوں کے لمحے آتے ہیں۔ ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی آزمائشوں سے گزرتے ہیں، چاہے وہ معاشی مشکلات ہوں، صحت کے مسائل، یا تعلقات میں دراڑیں۔آزمائشیں ناگزیر ہیں، لیکن ان پر ہمارا ردِعمل ہی ہماری کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے۔ زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا ایک عام سی بات ہے، لیکن بہت سے لوگ ان مشکلات کو شکست یا ناکامی سمجھتے ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرے میں آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بے صبری اور ناشکری کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ایک معمولی نقصان ہمیں فوراً شکوے اور شکایت پر اُکسا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر شخص اپنی زندگی کے خوشگوار پہلوؤں کو نمایاں کر کے پیش کرتا ہے، ہم اپنی زندگی کو ان سے موازنہ کر کے ناکافی سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ہماری ذاتی خوشیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ ہمیں اندر سے کمزور بھی بناتا ہے۔

ناشکری کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ نعمتوں کو نظرانداز کر کے ان چیزوں پر توجہ کرتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ شکر گزاری نہ صرف ہمارے ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ہمارے تعلقات اور سماجی رویوں پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہے۔ شکر گزار شخص زیادہ خوش اور مطمئن رہنے کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح صبر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مشکلات کا سامنا نہ کریں یا خاموشی سے سب کچھ برداشت کر لیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم ان مشکلات کے باوجود اپنی امید اور خود اعتمادی کو برقرار رکھیں۔ صبر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کامیابی اور بہتری کے وقت اور محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ ہماری موجودہ دنیا، جہاں فوری نتائج کی خواہش عام ہو گئی ہے، صبر کے حقیقی فلسفے کو نظرانداز کر رہی ہے۔کامیابی اور خوشحالی کی مخصوص تصویر نے ہمیں یہ باور کرا دیا ہے کہ اگر ہم اس تصویر میں فٹ نہیں ہوتے تو ہم ناکام ہیں۔ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے ہمیں اس قدر عادی بنا دیا ہے کہ ہر چیز فوری ملنی چاہیے، چاہے وہ معلومات ہوں یا کامیابی۔ اس کے نتیجے میں ہم مادی چیزوں پر اتنا زیادہ فوکس کرنے لگے ہیں کہ روحانی سکون اور قناعت کو بھول گئے ہیں۔

ہمیں اپنی زندگی میں صبر اور شکر کے فوائد کو مزید واضح کرنے کے لیے حقیقی مثالوں کو اپنانا ہوگا۔ مثال کے طور پر جب ہم کسی مالی مشکلات سے دوچار ہوں تو یہ یاد رکھیں کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس بنیادی ضروریات بھی نہیں ہوتیں۔ یا اگر ہم صحت کے مسائل کا شکار ہوں تو اس بات پر غور کریں کہ ہم پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں زندگی کی خوبصورتی کا تجربہ کر رہے ہیں۔ زندگی کے سفر میں ہم دوسروں کی مدد کر کے بھی صبر اور شکر کے جذبات کو فروغ دے سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کے مسائل کو سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہمیں اپنے مسائل کے بارے میں بہتر شعور فراہم کرتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ہمارے اندر ہمدردی پیدا کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں کتنی نعمتوں کے حامل ہیں۔

مزید برآں! ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں ان لمحات کو بھی اپنانا چاہیے جہاں ہم اپنی کامیابیوں اور خوشیوں کا جشن منا سکیں۔ یہ لمحات نہ صرف ہمیں مثبت توانائی فراہم کرتے ہیں بلکہ ہماری زندگی کو معنی خیز بناتے ہیں۔ شکر گزاری کے اظہار کے لیے روزانہ چند لمحے نکال کر ان چیزوں پر غور کریں جن کے لیے ہم اللہ کے شکر گزار ہو سکتے ہیں۔ یہ عمل ہماری سوچ کو بہتر بنا سکتا ہے اور ہمیں زندگی میں ایک نئی توانائی فراہم کر سکتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر صبر اور شکر کی اہمیت کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور میڈیا میں ایسے موضوعات کو شامل کرنا چاہیے جو ان اوصاف کی اہمیت کو بیان کریں۔ سوشل میڈیا پر مثبت کہانیوں کو نمایاں کرنا اور مراقبہ، دعا اور ذہنی صحت کے پروگراموں کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔

یاد رکھیں! آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں، ان سے فرار ممکن نہیں۔ لیکن ان کا سامنا کرتے وقت ہمارا رویہ ہی ہماری اصل پہچان بنتا ہے۔ صبر اور شکر کا دامن تھام لیں تو مشکلات بھی ہمیں مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ہر رات کے بعد ایک نیا دن طلوع ہوتا ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ آئیے!اپنی زندگی میں صبر اور شکر کو شامل کریں تاکہ نہ صرف اپنی زندگی سنوار سکیں بلکہ معاشرے کو بھی ایک مثبت اور خوشحال جگہ بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔