مولانا سید حسین احمد مدنی دینی مدارس کے طلبہ اور نصاب و نظام کے حوالے سے بہت متحرک تھے۔ 1926ء میںانہوں نے بنگال اور آسام کے دینی مدارس کے لیے باقاعدہ ایک نصاب بھی وضع کیا تھا۔ ایک دفعہ ایک سفرکے دوران ان کی ملاقات مولانا عبد الحمید فراہی سے ہوئی۔ مولانا حسین احمد مدنی آسام سے واپس آرہے تھے اور مولانا فراہی برما سے واپس تشریف لائے تھے۔ دونوں کی اچانک کلکتہ میں ملاقات ہو گئی۔ مولانا فراہی مدرسہ سرائے میر کے ناظم تھے۔ مولاناحسین احمد مدنی نے ان سے پوچھا: ”سنا ہے کہ آپ نے مدرسے سے انگریزی نکال دی ہے اور صرف عربی رکھی ہے؟” مولانا فراہی نے جواب دیا: ”انگریزی رکھی جاتی ہے تو غالب آ جاتی ہے عربی پر۔ طلبہ کے دماغ سے عربی تو نکل جاتی ہے اور انگریزی اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے، اس لیے انگریزی کو نکال دیا۔”
انسانی نفسیات بتاتی ہیں کہ جہاں وقتی اور طویل المیعاد فوائد کو جمع کیا جائے انسانی نفسیات وقتی فائدے کو ترجیح دیتی ہیں اور اس کے حصول میں لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح جہاں دین اور دنیا کو اکٹھا کیا جائے انسانی نفسیات دنیا کی طرف راغب ہوتی ہیں اور دین کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ یہی تجربہ دینی مدارس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور مولانا فراہی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ دینی مدارس دینی تعلیم کے فروغ کا اہم ذریعہ ہیں۔ موجودہ دور میں جب عصری تقاضوں کے مطابق مدارس میں عصری و دنیاوی علوم پر بجا طور پر زور دیا جا رہا ہے، وہیں دینی مدارس کی روح اور اساس کو برقرار رکھنے کی ضرورت بھی پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ دنیاوی علوم کی اہمیت اپنی جگہ مگر اس بات کا اہتمام از حد ضروری ہے کہ مدارس کے نظام میں دینی علوم کی مرکزیت و محوریت برقرار رہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جدید علوم کی اہمیت کا انکار کر دیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دینی و دنیاوی علوم میں اعتدال وتوازن برقرار رہے۔ مولانا مدنی اور مولانا فراہی کے مذکورہ مکالمہ میں مولانا فراہی کی جانب سے انگریزی کو نصاب سے ہی نکال دینے کے فیصلے پر کلام کی گنجائش ہے تاہم اس میں دینی مدارس کی پالیسی کے حوالے سے ایک گہری بصیرت موجود ہے۔ دینی مدارس کااولین اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ طلبہ قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم میں گہرائی اور مہارت حاصل کریں اور ان کے ذہن دنیاوی خیالات اور مادی رغبتوں سے متاثر نہ ہوں۔ دینی مدارس کا مقصد محض کتابی علم دینا نہیں بلکہ اسلامی معاشرتی اصولوں پرایسے تربیت یافتہ افراد تیار کرنا ہے جو اپنے علم و کردار سے معاشرے کو مذہبی راہنمائی فراہم کر سکیں۔
یہاں میں مولانا یوسف لدھیانوی کا ایک واقعہ درج کرناچاہتا ہوں، مولاناکہتے ہیں کہ میرے طالب علمی کا زمانہ تھا، حدیث شریف سے فارغ ہو چکا تھا، اگلی پچھلی کتابیں پڑھ رہا تھا، میرے دوستوں نے مولوی فاضل کے لیے یونیورسٹی میں داخلے لے لیے کہ مولوی فاضل بن جائیں گے اور اس کے ذریعے کوئی سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ میرے دو ساتھی تھے جنہوں نے مولوی فاضل میں داخلہ لے لیا تھا اور اس کی تیاری کر رہے تھے۔ جب بھی ہم اکٹھے بیٹھتے تو مجھ سے کہتے کہ تم بھی امتحان دے لو۔ میں کہتا میں غریب آدمی ہوں اسی روپے داخلہ فیس ہے اتنی فیس میں کہاں سے ادا کروں گا؟ ایک دن ان میں سے ایک کہنے لگا کہ تمہاری فیس میں ادا کروں گا تم داخلے کے لیے آمادہ ہو جاؤ۔ میں نے پوچھا سچ کہتے ہو؟ کہنے لگا بالکل، میں نے کہا کہ پہلے تو میں تمہیں ٹالتا تھا مگر اب اصل جواب سنوکہ اگر یو نیورسٹی کی جانب سے میرے نام خط آئے اور اس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ آپ کا داخلہ بغیر فیس کے منظور کیا جاتا ہے آپ از راہ کرم فلاں تاریخ کو ہماری امتحان گاہ تشریف لے آئیں۔ آکر بیٹھ جائیں، کچھ نہ لکھیں، سادہ کاغذ چھوڑ کر چلے جائیں۔ ایک سطر بھی نہ لکھیں، آپ پر کوئی پابندی نہیں اور آپ سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اس کے باوجود آپ کو یونیورسٹی میں سب سے اول نمبر قرار دیا جائے گا۔ بس آپ امتحان گاہ میں قدم رکھنے کی زحمت فرمائیں، میں نے کہا اگر بالفرض یونیورسٹی کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا خط آبھی جائے تب بھی میں یونیورسٹی کی امتحان گاہ میں قدم نہیں رکھوں گا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ مولوی فاضل کے امتحان میں کام یابی کیا چیز ہے، یہ عہدے اور یہ ڈگریاں کیا چیز ہیں، مجھے اپنی نالائقی کے باوجود اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام پڑھا ہے اس کے بعد مجھے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں۔
یہ واقعہ سنانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ یونیورسٹیوں میں جا کر تعلیم حاصل نہ کریں کیونکہ ہر شخص مولانا یوسف لدھیانوی جیسا تصلب و توکل والا نہیں ہوتا۔ راقم نے خود یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی ہے بلکہ اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ ایک عالم دین کو اپنی بنیادی ذمہ داری سے آگاہ ہونا چاہیے اور اس کا عکس اس کی ترجیحات میں بھی نظر آنا چاہیے۔ ایک عالم دین کی بنیادی ذمہ داری علم دین کی حفاظت و اشاعت ہے جو اس نے آٹھ دس سال لگا کر مدرسے میں حاصل کیا ہے۔ آج مدارس کے طلبہ کا رجحان یونیورسٹیوں اور سرکاری نوکری کے حصول کی طرف کچھ زیادہ ہو گیا ہے اور اصل مقاصد کی طرف توجہ بہت کم رہ گئی ہے۔ اس لیے دینی مدارس کی اصل ورح کو سمجھنے اور دینی و دنیاوی تعلیم میں اعتدال و توازن قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دینی مدارس سماج کے وہ قلعے ہیں جومادیت پرستی کے ماحول میں اسلام کی اصل روح کی حفاظت کررہے ہیں۔ دینی مدارس اسلامی تہذیب کے وہ آخری مورچے ہیں جن کے بعد الحاد ومادیت کے سیلاب کے سامنے کوئی نظریاتی یا عملی مزاحمت باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے ایک طرف دینی مدارس کے فضلاء کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور اپنی ترجیحات کے درست تعین کی ضرورت ہے اور دوسری طرف مدارس کے منتظمین کو مدارس کے نصاب و نظام اور پالیسی سازی کے لیے گہری بصیرت اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ وقتی فوائد اور جدیدیت سے تاثرکی بنیاد پر اگر ہم نے اپنے نظام تعلیم میں خالص دینی علوم کی محوریت ختم کردی تو اس کے نتائج خود دینی مدارس، دینی مدارس کے فضلاء اور امت کے حق میں پریشان کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
