غزہ(اسلام ڈیجیٹل)اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی)کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں ہونے والے نقصانات کی تلافی میں کافی وقت لگے گا۔
رپورٹ میں پانی اور صفائی ستھرائی کے نظام کوتقریباً مکمل طور پر ناکارہ قرار دیا گیا ہے، کیمپوں اور پناہ گاہوں کے ارد گرد بڑھتے ہوئے کچرے اور تباہ شدہ سولر پینلز اور استعمال کیے جانے والے گولہ بارود کے کیمیکلز مٹی اور پانی کی فراہمی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔ تباہی سے 50ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہوا ہے۔ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے ملبے اور دھماکہ خیز مواد کو صاف کرنے میں 21سال کا طویل وقت لگ سکتا ہے۔
غزہ میں ماحولیاتی نقصانات میں اضافے سے اس کے لوگوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کی بحالی میں طویل وقت لگ سکتا ہے۔تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کیسے ہوگی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اس تعمیر نو کے دوران 20لاکھ فلسطینیوں کو کہاں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ مثال کے طور پر انڈونیشیا ان مقامات میں شامل ہے جہاں ان میں سے کچھ جا سکتے ہیں۔یہاں یہ سوال بھی ہے کہ آیا غزہ کے لوگ کہیں اور جانے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
اس پر بھی بحث جاری ہے۔ منتقلی کا خیال فلسطینیوں اور عربوں کے درمیان انتہائی متنازعہ ہے۔ امریکی نیٹ ورک NBCنے اطلاع دی کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ تعمیر نو کے عمل کے دوران غزہ کی آبادی کے ایک حصے کو پٹی سے باہر منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ امریکی نیٹ ورک نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انڈونیشیا کو ان ممالک میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے جو غزہ کی 20لاکھ آبادی کی عارضی طور پر میزبانی کر یں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹ کوف اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو برقرار رکھنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر جنگ زدہ غزہ کی پٹی کے دورے پر غور کر رہے ہیں۔ٹرمپ اور ان کی ٹیم معاہدے کے موجودہ مرحلے کا انتظام کر رہی ہے اور اگلے مرحلے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم طویل مدتی حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ اگر ہم غزہ کے لوگوں کی مدد نہیں کرتے، اگر ہم ان کی زندگیوں کو بہتر نہیں بناتے، اگر ہم انہیں امید کا احساس نہیں دلاتے ہیں تو وہاں بغاوت ہو جائے گی۔