اسلام آباد/موریطانیہ (خبرایجنسیاں) وزارتِ خارجہ نے مراکش میں زندہ بچ جانے والے21پاکستانیوں کی فہرست جاری کردی۔ترجمان وزارتِ خارجہ کے مطابق وزارتِ خارجہ امدادی کارروائیوں کی نگرانی کررہی ہے، رباط میں پاکستانی سفارتی مشن کے ذریعے متاثرہ شہریوں کو فوری امداد فراہم کی گئی۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ سفارتخانے نے متاثرہ افراد کیلئے ضروری اشیا، کھانا، پانی، ادویات اور کپڑوں کا بندوبست کیا، مقامی حکام ہماری سفارتی درخواست کے تحت پناہ گاہیں اورطبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کی قونصل ٹیم اس وقت دخلہ میں موجود ہے، مراکش میں متعلقہ حکام کے ساتھ قریبی رابطے میںہیں تاکہ متاثرین کو مکمل مدد فراہم کی جاسکے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ بچ جانے والے شہریوں کی وطن واپسی کے عمل کیلئے بھی کوشاں ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کیلئے پرعزم ہیں۔
بچ جانے والوں میں مدثر حسین، وسیم خالد، محمد خالق، عبدالغفار، گل شمیر، تنویر احمد، عباس کاظمی، غلام مصطفی،بدر محی الدین، عمران اقبال شامل ہیں۔دوسری جانب حادثے میں جاں بحق گجرات کے ابوبکر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ کشتی حادثہ نہیں بلکہ مزید پیسوں کا تقاضا کیا گیا اور اس لیے نوجوانوں کی جان لی گئی۔اہلخانہ کے مطابق ابوبکر کے لیے گھر والوں نے رشتے داروں سے رقم اکٹھی کرکے ایجنٹ کو 40 لاکھ روپے دیے تھے۔ منڈی بہاء الدین کا غلام شبیر اپنے 2 بیٹوں حماد اور ابرارکا انتظار کرتا رہ گیا،چچا کا کہنا ہے کہ ایجنٹ یورو اور ڈالروں کے خواب دکھاتے ہیں تو لڑکے ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق کشتی سانحے میں اب تک 29 متاثرہ خاندان سامنے آئے ہیں ، گجرات کے 5 نوجوانوں کے بچ جانے کی اطلاعات ہیں جبکہ منڈی بہاء الدین، سیالکوٹ اور شیخوپورہ کے بھی 3 ،3 نوجوانوں کا گھر والوں سے رابطہ ہوا۔میڈیا رپورٹ کے مطابقمراکشی حکام نے کشتی حادثے کے واقعے میں36افراد کو بچایا ہے جنھیں بندرگاہ دخلہ کے قریب ایک خیمے میں رکھا گیا ہے۔ کشتی کے اس13روزہ سفر سے زندہ بچنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اسمگلروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پرتشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔
گجرات سے تعلق رکھنے والے عزیر بٹ اس کشتی میں سوار تھے جو پرخطر راستے سے اسپین کے کنیری جزیرے جا رہی تھی مگر ان کے بقول یہ کشتی کئی دن تک سمندر میں پھنسی رہی جس کے دوران بے یار و مددگار مسافروں کو کئی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔عزیر بٹ یاد کرتے ہیں کہ پانچ جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔اس کے بعدا سمگلروں نے کچھ لوگوں کو ایک دوسری کشتی میں سوار کیا جس پر باقی مسافروں کی ا سمگلروں سے تلخ کلامی ہوئی۔
انھوں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا اور کشتی کو اس مقام پر بند کر کے دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے۔بچنے والے پاکستانی شہری مہتاب شاہ اس وقت دخلہ میں قائم ایک کیمپ میں موجود ہیں اور ان کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔مہتاب شاہ کہتے ہیں کہ جب اندھیرا چھٹا اور صبح ہوئی تو کچھ لوگ ایک اور کشتی میں سوار ہو کر آئے اور انھوں نے ہمارا جائزہ لیا اور منڈی بہاء الدین کے چار لڑکوں کو تھوڑا آگے بلایا۔
ان کے پاس چھوٹے ہتھوڑے تھے۔ ان ہتھوڑوں سے ان کے چہروں اور سر پر ضربیں لگائیں اور پھر انھیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان چار لڑکوں کو تو سمندر میں پھینکا گیا مگر وہاں پر موجود باقی سب لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کو لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا۔ ہم لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہمیں کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کا کہنا ہے کہ اسے 10 جنوری کو معلوم ہوا تھا کہ موریطانیہ کے ساحل سے نکلنے والی ایک کشتی مشکلات کا شکار ہے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو پائی تھی کہ اس میں تارکین وطن سوار ہیں کیونکہ فضائی کھوج کے دوران اسے ڈھونڈا نہیں جاسکا تھا۔این جی او واکنگ بارڈرز کے مطابق اس نے کئی روز قبل تمام ممالک کے حکام کو لاپتہ کشتی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ ایک دوسری این جی او الارم فون کے مطابق اس نے 12 جنوری کو اسپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کو کشتی کے حوالے سے اطلاع دی تھی۔واکنگ بارڈرز کے مطابق 15 جنوری کو مراکشی حکام نے کشتی میں سوار 36 افراد کو بچایا جبکہ 2 جنوری کو سفر کے آغاز پر اس میں 66 پاکستانی شہریوں سمیت کل 86 افراد سوار تھے۔