National Assembly of Pakistan

مجھے پراکسی کہا گیا تو ثابت کرنا ہوگا، فیصل واوڈا

اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ مجھے پراکسی کہا گیا تو اسے ثابت کرنا ہوگا۔

ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا جو جواب ہوگا وہ تو میں وہاں دوں گا۔ لیکن میں اس پر شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ نے دیکھ لیا کہ جسٹس سسٹم کے پاس پاورز تھیں لیکن انھوں نے ڈیٹ دی کہ میں بھی وہاں جاکر اپنا موقف دوں۔ یہ ایک طریقہ ہے کہ آپ دوسری پارٹی کو بھی سنیں۔ اب کم از کم یہ تو آپ کو سکون ہے کہ آپ ایک دیانت دار اور ایمان دار بینچ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ وہاں چیف جسٹس اسلام آباد کو پی ٹی آئی کے رؤف حسن صاحب ٹائوٹ بول رہے ہیں۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ تسلسل سے کون سی غلاظت نہیں بک رہے۔ ادھر سو مو ٹو نہیں ہو رہا۔ میں تو ایگریوڈ پارٹی ہوں۔ اسی اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجھے ایک نہیں دو دفعہ سزائیں دی ہیں اس جرم کی جو میں نے نہیں کیا تھا۔ مجھے ٹرائل بھی نہیں دیا گیا تھا۔ میری ماں بستر مرگ پر تھی۔ اس وقت میرا کیا قصور تھا مجھے تو آج تک نہیں پتہ چلا۔

انہوں نے کہا کہ آج ایک جج اطہر من اللہ کہہ رہے ہیں کہ میں پراکسی ہوں۔ مجھے پراکسی ثابت کرنا ہوگا۔ اگر انہوں نے مجھے نہیں کہا تو یہ ایک الگ بات ہوگی۔میں ابھی بھی کوئی الزام نہیں لگائوں گا۔ میں غلط ہوں تو ایک سڑک پر بیٹھے شخص سے بھی معافی مانگ سکتا ہوں۔ اگر میں ٹھیک ہوں تو میں کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔ میں نے ایک مرتبہ بوٹ رکھا تھا۔ اس وقت مجھے پر ہر قسم کا پریشر آیا کہ معافی مانگوں۔ لیکن میں نے کہا میری فوج کی تذلیل کی نیت نہیں تھی، میں معافی نہیں مانگوں گا۔

سینیٹر فیصل واوڈ کا کہنا تھا کہ اگر میرا سوال اٹھانا مجھے توہین عدالت کے زمرے میں لے اتا ہے تو میں سوا ل تو کروں گا۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں فوج کی ترجمانی کر رہا ہوں۔ سینیٹر اور بطور وزیر میراکام ہے کہ میں عدلیہ کا ، اپنے ریاستی اداروں کا اور فوج کا بھی دفاع کروں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ میرا آج کوئی ایشو ہے اور سینیٹ کا اجلاس چھ مہینے بعد ہے تومیں چھ مہینے کا انتظار کروں گا۔ میں نے ان (جسٹس بابر ستار) کی اہلیت کو تو کویسچن ہی نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ نے ایک لفظ لکھا تھا کہ رپورٹڈ۔ اس سے تاثر گیا کہ وہ ریکارڈڈ ہے۔ پھر آپ کا اگلا جواب آیا کہ میں بھی یہ کہہ رہا تھا کہ ثبوت ہے تو دکھا دیں۔ تو آپ پہلے دن ہی لیٹر میں لکھ دیتے کہ ثبوت نہیں ہے، ریکارڈ نہیں ہے۔ اس کے بعد اگلا لیٹر آتا ہے۔ مجھے کہتا ہے کہ جی ہمارے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ کہتے ہیں کہ جوڈیشل کونسل میں اس کا فیصلہ ہوا۔ چلیں میرا گمان اور یقین ہے جوڈیشل کونسل میںیہ چیز کلیئر ہوئی ہے اس کے تو منٹس ہوں گے۔ وہ منٹس ہمیں دکھا دیں۔ بس تنازع ختم.