کراچی؛ انٹر سال اول کے متنازع نتائج، بورڈ کا امتحانی ریکارڈ سیل

کراچی: انٹر سال اول کے متنازع نتائج کی چھان بین کے لیے قائم وزیر اعلیٰ سندھ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے انٹر بورڈ کراچی کے ریکارڈ رومز/ فیکلٹیز سیکشنز اور آئی ٹی سیکشن سیل کرادیااور بورڈ افسران و ملازمین کی انٹر سال اول کی جانچ شدہ کاپیوں اور آئی ٹی سیکشن تک رسائی روک دی ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے بورڈ کے سیکریٹری سے امتحانی قوانین سمیت دیگر متعلقہ ریکارڈ طلب کرلیا ہے، ادھر بورڈ نے اپنے ملازمین کی پیر 5 فروری کی تعطیل منسوخ کرتے ہوئے انھیں ریکارڈ کی دستیابی کے لیے طلب کرلیا ہے۔

یاد رہے کہ نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس(ر) مقبول باقر نے انٹر سال اول کے متنازع نتائج جاری ہونے کے 25 ویں روز این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں ہفتہ 3 فروری کو ایک سہ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی تھی، کمیٹی نے کام کا آغاز کردیا ہے اور انٹر بورڈ کراچی کے ذرائع کے مطابق کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر سروش لودھی نے اتوار کو کمیٹی کا پہلا اجلاس بورڈ میں منعقد کیا۔

اجلاس میں بورڈ کے متعلقہ افسران کو بھی بلایا گیا تھا، کمیٹی کے ایک رکن سیکریٹری سندھ ایچ ای سی اجلاس میں آن لائن شریک ہوئے جبکہ ایک تیسرے رکن آئی بی اے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی پہلے اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

انٹر بورڈ کے ایک افسر نے ’’ ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ اجلاس کے دوران کمیٹی نے ہم سے امتحانی پرچوں کی ترتیب(پیپر سیٹر)، کاپیوں کی جانچ کے طریقہ کار ، بورڈ آف گورنرز کی تفصیلات اور چیئرمین ،سیکریٹری اور ناظم امتحانات کی ذمےداریوں کے حوالے سے قوانین کی دستاویزات مانگی ہیں لہذا اس سلسلے میں بورڈ کے تمام متعلقہ عملے و افسران کو پیر کے روز بلالیا گیا اور اس سلسلے میں ایک سرکلر بھی جاری کیا گیا ہے۔

ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے کنوینر کی جانب سے پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل سمیت وہ تمام متعلقہ سیکشنز سیل کرائے گئے ہیں جہاں انٹر سال اول کی جانچ شدہ کاپیاں موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی سیکشن بھی سیل کیا گیا ہے تاکہ کمپیوٹرائز ٹیبولیشن میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کی جاسکے۔

ذرائع کے مطابق کمیٹی کنوینر نے تمام سیکشنز کا دورہ کرکے خود اس امر کی یقین دہانی کی کہ تمام سیکشن میں سیل لگی ہوئی ہے، بتایا جارہا ہے کہ کمیٹی مزید کارروائی کے لیے جلد اپنا آئندہ اجلاس منعقد کرے گی۔

یاد رہے کہ انٹر سال اول کے نتائج کا تناسب اس سال 34 سے 36 فیصد رہا ہے، اے ون اور اے گریڈ میں پاس ہونے والے طلبا کی تعداد دو ہندسوں میں ہے، طلبا اس نتیجے کو مسترد کرچکے ہیں اور معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔