AliGarh Station

مودی سرکار مسلم دشمنی میں علی گڑھ کا نام تبدیل کرنے پرتل گئی

لکھنؤ: بھارت کی مودی سرکار مسلم دشمنی میں الٰہ آباد اور فیض آباد کے بعد اب علی گڑھ کا نام بھی تبدیل کرنے جا رہی ہے۔

بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی مرکزی حکومت کے دوسرے دور میں بھی وزیراعظم نریندر مودی کی آشیرباد سے مسلم مخالف مہم عروج پر ہے جب کہ سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے بی جے پی اور اس کی ذیلی انتہا پسند تنظیمیں مسلم مخالف کارڈز کو ہمیشہ سے استعمال کرتی رہی ہیں۔

بھارت سے مسلم شناخت مٹانے کے درپے مودی سرکار اپنی ہندوتوا پالیسی پر عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کی کھلی حمایت سے ہندو انتہا پسند تنظیمیں کبھی مساجد پر حملے کرتی ہیں تو کبھی عمارتیں مسمار کرتی ہیں۔ بھارت میں اسلامی تاریخ اور ثقافت مٹانے کے عزم کے ساتھ مودی سرکار کبھی ریلوے اسٹیشنز کا نام بدل رہی ہے تو کبھی شہروں کے نام اور ان کی پہچان تبدیل کی جا رہی ہے۔

بھارتی ریاست اتر پردیش میں میں الٰہ آباد کے بعد اب ایک اور اسلامی شناخت کے حامل شہر کا نام بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے شہر کا نام بدل کر ہری گڑھ رکھنے کی تجویز منظور کرلی ہے۔ یہ تجویز شہر کے میئر پرشانت سنگھل کی جانب سے گزشتہ روز کے اجلاس میں پیش کی گئی تھی، جس کی میونسپل کارپوریشن کے تمام کونسلرز نے متفقہ طور پر حمایت کی ہے۔

ریاستی حکومت کی جانب سے علی گڑھ کا نام بدلنے کی منظوری کی صورت میں اتر پردیش میں نام تبدیل کیے گئے شہروں کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے قبل 2019ء میں الٰہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج رکھا گیا تھا۔

علی گڑھ کے میئر پرشانت سنگھل نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مطالبہ طویل عرصے پہلے سے جاری ہے اور امید ہے کہ ریاستی انتظامیہ منظوری دیتے ہوئے علی گڑھ کا نام بدل کر ہری گڑھ کردے گی۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اپنے دور میں مسلم مخالف مہم بہت شدت سے جاری رکھی ہوئی ہے اور اس سے قبل وہ کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ ہمیں جہاں ضرورت ہوگی ہم ضروری اقدامات کرتے ہوئے فیصلے کریں گے۔ جیسے ہم نے الٰہ آباد اور فیض آباد سمیت دیگر شہروں کے نام بدلے، آئندہ بھی ہمیں جو اچھا لگے گا، ہم وہی کریں گے۔

شہروں کے نام تبدیل کرنے کی مہم کے دوران بی جے پی کے کئی ارکان مطالبہ کرچکے ہیں کہ دوسرے شہروں کے نام بھی تبدیل کردیے جائیں۔ اسی طرح آگرہ کا نام بدلنے کی بھی ایک تجویز سامنے آئی تھی، جس کے مطابق اس کا نام تبدیل کرکے اگروال رکھ دیا جائے جب کہ مظفر نگر کا نام بدل کر لکشمی نگر رکھنے کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی۔