افغان طالبان نے فلاحی تنظیموں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگا دی

افغان طالبان نےتمام مقامی اور غیر ملکی فلاحی تنظیموں کو خواتین ملازمین کو کام پر نہ بلانے کی ہدایت جاری کر دی۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین کو فلاحی تنظیوں میں کام کرنے سے روکنے کا حکم نامہ افغان وزارت اقتصادی امور نے جاری کیا۔

ترجمان وزارت اقتصادیات عبدالرحمٰن حبیب نے بتایا کہ خواتین کے لباس سے متعلق ’اسلامی قوانین‘ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے تمام افغان خواتین اگلے نوٹس تک کام نہیں کرسکتیں۔

فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ افغان طالبان کے حکم کا اطلاق اقوام متحدہ کے زیر انتظام کام کرنے والی این جی اوز پر بھی ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے فلاحی ادارے بڑی تعداد میں کام کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل افغان طالبان نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی تھی جس کے بعد عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور افغانستان میں بھی اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

23 دسمبر کو جامعہ الازہرکے امام نے طالبان کے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے اسلامی شریعت سے خلاف قرار دیا تھا۔

اسلامی تعلیم کی مشہور جامعہ کے سربراہ شیخ احمد الطیب نے افغانستان میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی پر تشویش کا اظہار کیا اور اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔

شیخ احمد الطیب نے افغان حکام سے خواتین پر تعلیم کی پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی، انہوں نے کہا کہ افغان خواتین کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی پابندی پر جامعہ الازہر کو شدید افسوس ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ اسلامی شرعیت سے متصادم ہے، اسلام میں مرد اور خواتین کو ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرنے کی واضح طور پر حکم دیا گیا ہے۔

شیخ احمد الطیب نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ تمام مسلم اور غیر مسلموں کے لیے حیرت کا باعث ہے، ایسا فیصلہ کسی مسلمان کو جاری نہیں کرنا چاہیے، میں واضح طور پر اس فیصلے کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ یہ فیصلہ اسلامی شریعت کی نمائندگی نہیں کرتا۔