کچھ مفتی عبدالرحیم صاحب کے دفاع میں

گزشتہ سے پیوستہ:
مفتی عبدالرحیم صاحب کی ایک بات مجھے ازحد پسند آئی کہ ان کے نزدیک پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اس کا تحفظ وہ ہر چیز سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کا ساتھ اور ان کی مبینہ سرپرستی کی تو مفتی عبدالرحیم صاحب نے کھل کر اس پر آواز بلند کی۔ دیوبندی علمی اور دینی حلقے سے وہ سب سے نمایاں، ممتاز اور سرکردہ شخصیت ہیں جو اس حوالے سے افغان طالبان پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف سازشوں اور دہشت گردی پر ان خوارج کو شدت سے ہدف تنقید بنا رہے، ان کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مفتی عبدالرحیم صاحب شمشیر برہنہ ہیں۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر وہ کھل کر اس کی مذمت کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بہت کچھ وہ اپنی نجی محفلوں اور شاگردوں کے ساتھ گفتگوؤں میں برسوں سے کہتے آئے تھے۔ اب حالات کے پیش نظر انہوں نے پبلک سپیچز اور پوڈ کاسٹ گفتگوئیں بھی شروع کر دی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے بہت سے لوگ نالاں اور بیزار ہوئے ہیں، خاص کر وہ جو ہمیشہ سے ان دہشت گردوں کے سہولت کار اور حامی رہے ہیں۔ انہیں تکلیف ہو رہی ہے کہ جامعة الرشید جیسی بڑی دینی درسگاہ اور مفتی عبدالرحیم جیسا ممتاز عالم دین جو دیوبندی علماء میں اپنا ایک خاص مقام اور حیثیت رکھتا ہے، وہ اتنی شدت، جرأت اور صاف گوئی سے ان خوارج، دہشت گرد گروپوں، تکفیریوں اور ہماری پڑوسی افغان حکومت پر تنقید کر رہا ہے، انہیں بے نقاب کر رہا ہے اور ان خوارج کے خلاف ایک باقاعدہ، منظم اور مربوط بیانیہ تخلیق کر رہا ہے۔

آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ پچھلے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر مفتی عبدالرحیم صاحب پر تنقید کے اندھا دھند تیر چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جے یو آئی ف کے حامیوں کو یہ شکوہ ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے اندھے مقلد نہیں، کچھ اس پر ناراض ہیں کہ انہوں نے وفاق المدارس سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا الگ سے مدرسہ بورڈ کیوں قائم کر دیا؟ انہیں غصہ ہے کہ جامعة الرشید کو وفاق المدارس سے الگ ہونے کی جرأت کیسے ہوئی؟

یہ ناقدین سامنے کی بات نہیں سمجھتے کہ جامعة الرشید اور وفاق المدارس میں بہت سا ذہنی بُعد اور فرق ہے۔ وفاق والے برائے نام ہی عصری تعلیم کے حامی ہیں جبکہ جامعة الرشید والے یہ سمجھتے اور مانتے ہیں کہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم باقاعدہ ضروری ہے۔ ان کے مفتی کے لئے ضروری ہے کہ وہ جدید عصری تعلیم کی ڈگری بھی حاصل کرے۔ مثال کے طور پر جامعة الرشید کے مفتی کورس میں حلال حرام کے حوالے سے فتوے دینے والے کے لیے ایم ایس سی فوڈ سائنسز ہونا لازمی ہے۔ بینکنگ پر فتوے دینے والے کے لئے ساتھ ایم بی اے کرنا لازم ہے جبکہ قانونی امور پر فتوے دینے والا مفتی پہلے ایل ایل بی کرے گا، ورنہ اسے فتوے کا حق ہی نہیں ملے گا۔ یہ صرف جامعة الرشید ہی کررہی ہے، وفاق المدارس سے جڑے ہوئے مدارس کا یہ خیال اور سوچ نہیں۔

بہت سے لوگوں کو تکلیف یہ ہے کہ مفتی عبدالرحیم صاحب دہشت گردوں کو بے نقاب کر رہے ہیں، ان کے کمزور، جھوٹے، بناوٹی بیانیہ کا پردہ چاک کر کے انہیں ایکسپوز کر رہے ہیں۔ چند دن پہلے لال مسجد کے حوالے سے مفتی صاحب کی ایک ویڈیو آئی تو تنقید کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ حالانکہ تنقید کرنے والوں نے وہ ویڈیو سنی ہی نہیں۔ مفتی صاحب کا واضح موقف ہے کہ لال مسجد آپریشن غلط تھا، ناجائز تھا، ظلم تھا، اس میں ہونے والی ہلاکتیں بھی ظلم اور غلط ہے۔ پرویز مشرف نے یہ غلط کیا۔ البتہ مفتی عبدالرحیم صاحب نے اپنی معلومات کی بنیاد پر کہا کہ اس آپریشن میں لڑکے اور مرد حضرات تو ہلاک یا شہید ہوئے مگر اس میں طالبات شہید نہیں ہوئیں اور اس حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس موقف کے حق میں ان کے پاس کئی دلائل اور شہادتیں ہیں۔ وہ معتبر علماء کی روایت اور ان کی زبانی دی گئی شہادت کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں۔ اس سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے مگر یہ سچی بات کہنے پر مفتی صاحب کو گالیاں دینے، کیچڑ اچھالنے کی کوئی تک یا جواز نہیں۔

بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہ بیان اب کیوں دیا؟ اس پر مفتی صاحب نے ایک وضاحتی ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ دراصل ان کی پوری سیریز ہے ان موضوعات پر۔ وہ افغا نستا ن سے لے کر دیگر معاملات میں اپنا نقطہ نظر اور موقف سامنے رکھ رہے ہیں۔ پھر وہ جانتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر آپریشن کا جواز بنا کر دہشت گردوں نے کتنا خون بہایا۔ اسی لیے مفتی صاحب نے اس حقیقت کو بے نقاب کرنا ضروری سمجھا۔ وہ اس حوالے سے ٹی ٹی پی کے سربراہ کی حالیہ ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہیں کہ اسی لیے ان کا جواب دیا۔

میرے نزدیک مفتی عبدالرحیم صاحب نہایت قابل احترام عالم دین ہیں۔ مفتی صاحب وہ کام کر رہے ہیں جس کے ہم برسوں سے متمنی تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ دینی مدارس سے ایسے لوگ تیار ہوں جو دینی علوم کے ماہر ہوں اور انہیں جدید عصری علوم کا بھی اندازہ ہو۔ قدیم وجدید پر ان کی گہری نظر ہو اور وہ دینی روایت سے بھی جڑے ہوں۔ جامعة الرشید یہی کام کررہا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ دیوبندی مکتب فکر سے ایسے بڑے علماء سامنے آئیں جو ان دہشت گردوں، تکفیریوں، خوارج کے خلاف جرأت اور حق گوئی سے بات کر سکیں۔ جو ان کے مذموم پروپیگنڈا اور غلط بیانیہ کا توڑ کر سکیں۔ جو دہشت گردی کے خلاف بیانیہ تخلیق کریں جو سماج میں امن لانے کی کوشش کریں، غلط چیزوں کی اصلاح کریں، جو مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوں۔ الحمدللہ مفتی عبدالرحیم صاحب (استاذ صاحب) ویسے ہی عالم دین ہیں۔ ایک بڑے شخص، بڑے عالم، بڑے استاد اور بڑے مدرسے کے سربراہ۔ ایسے لوگ سماج کے لئے نعمت، اللہ کی رحمت اور ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ایسے لوگوں کے دفاع کے لئے کھڑا ہوا جائے، ان کے حق میں بات کی جائے۔ ان کے خلاف مسلک پرستوں، دہشت گردوں، تکفیریوں، خوارج اور ناسمجھ معترضین کے پروپیگنڈے کا جواب دیا جائے۔ حق اور سچ کی بات کی جائے اور دلائل کے ساتھ پوری علمی شائستگی برتتے ہوئے کاؤنٹر نیریٹو یعنی جوابی بیانیہ تخلیق اور تحریر کیا جائے۔ اللہ پاک مفتی عبدالرحیم صاحب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے، ان کو ہر آزمائش میں سرخرو رکھے اور کامیاب فرمائے، آمین!