شیخ عبداللہ، مسعود محمود اور بھٹو

ہمارے ہاں سیاست کی عجیب صورتحال چل رہی ہے۔ لاہور کے کشمیری امرتسری گھرانوں میں باسی کڑھی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس میں وہ لذت، تازگی اور مزا نہیں رہتا۔ آج کل کے ہمارے سیاسی منظرنامے کی وہی حالت ہے۔ دراصل حکمران اتحاد کو اپوزیشن ایسی ماٹھی اور نکھد ملی ہے کہ اب تنگ آ کر دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی نے آپس میںہی لڑنا شروع کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی چل رہی ہے اور اس کا کوئی سر ہے نہ پیر۔ سندھ پیپلزپارٹی نے پہلے خواہ مخواہ وفاق اور پنجاب کو مشورے جڑ دیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جواب میں بے بھائو کی سنائیں۔ ان کا لہجہ غیرضروری طور پر تندوتیز تھا۔ اس کا ردعمل پیپلزپارٹی کی طرف سے آ رہا ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اس کا اظہار چل رہا ہے۔ مجھے تو اس کی واحد وجہ دونوں طرف کے کیمپوں میں بوریت اور بیزاریت کے جذبات کا عروج ہے۔ دونوں نے سوچا کہ ویلے بیٹھے ہیں، کچھ نہ کچھ تو کریں، لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہی سہی۔ ویسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، دو چار دنوں میں دونوں ٹھیک ہوجائیں گے، صلح کرا دی جائے گی۔

خیر ایسے میں میرے جیسے اخبار نویسوں کے لیے ایک بہترین مشغلہ کتابوں کی سیر کرنا ہے۔ میں نے اُردو میں شائع ہونے والی کئی بائیوگرافیز اپنی لائبریری سے نکالیں اور انہیں پھر سے پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سیاستدانوں، بیوروکریٹس، پولیس افسران وغیرہ کی خودنوشت شامل ہیں۔ ایسی ہی ایک دلچسپ کتاب ایک سابق آئی جی پولیس کی ہے، انہوں نے اپنی پولیس سروس کا نچوڑ اپنی خودنوشت کتاب ”پولیس ملازمت کے چھتیس برس” میں رقم کیا۔ اس کے مصنف ایم ایم حسن پاکستان کے سابق آئی جی پولیس رہے ہیں، دوران ملازمت انہیں اہم جگہوںپر کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ کراچی اور دیہی سندھ کے شہروں میں بھی بطور پولیس افسر تعینات رہے جبکہ مشرقی پاکستان میں بحرانی دورمیں کام کیا۔ سقوط کے بعد قیدی بنے اور فوجی قیدیوں کی طرح بھارت کی قید میں رہے۔ اُن کی یاداشتوں پر مبنی کتاب میں ایام اسیری کی تفصیل بیان کی گئی اور پولیس ملازمت کے علاوہ علی گڑھ کالج میں اپنی تعلیم کی روداد بھی۔

ایم ایم حسن نے ایک واقعہ بیان کیا کہ علی گڑھ کے طالب علموں کی برین واشنگ کے لیے کانگریس نے مشہور کشمیر ی لیڈر شیخ عبداللہ کو بھیجا۔ شیخ عبداللہ نے یونین ہال میں طلبہ سے خطاب کیا۔ ہال طلبہ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ شیخ صاحب خوش ہوئے، اپنے خطبے کا آغاز قرآن کریم کی اس آیت سے فرمایا: ‘واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا’۔ بعد میں اس آیت کا ترجمہ بھی اپنی پاٹ دار آواز میں فرمایا۔ جب وہ یہ کہنے لگے اور تفرقہ مت ڈالو تو کسی ستم ظریف طالب علم نے اتنی ہی بلند آواز میں لے ملا کر پیچھے سے کہا اور اپنی قوم سے غداری مت کرو۔ ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ شیخ صاحب نے اپنے اوپر قابوپانے کی کوشش کی اور کہنے لگے، میرے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اپنی صفائی پیش کروں۔ تاہم شیخ عبداللہ کی اس تقریر کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے سے کچھ طلبہ ‘حق ہے، حق ہے’ کی مستقل صدائیں لگاتے رہے۔ آخرکار شیخ صاحب کا پارا چڑھ گیا، تلملا کر بولے: تم یہاں چین سے بیٹھے ماں باپ کے پیسے پر نرم نرم، پھولی پھولی روٹیاں کھا رہے ہو۔ جب کالج سے نکلو گے اور دھکے کھائو گے تو آٹے دال کا بھائو معلوم ہوگا۔

طلبہ ہی کا ایک واقعہ ایم ایم حسن نے سنایا، تب وہ کراچی میں پولیس افسر تھے۔ میاں بشیر اُن کے ڈی آئی جی تھے، وہ معروف پولیس افسر تھے، خاص مزاج کے حامل۔ ان دنوں اُردو کالج کے طالب علموں میں جھگڑا ہوگیا، پولیس نے کچھ طلبہ کو گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق اپنے شاگردوں کے لئے توشہ خانہ میں کھانا لے کر تشریف لے آئے۔ اتفاق سے اس وقت ڈی آئی جی میاں بشیر بھی وہاں موجود تھے، یہ دیکھ کر بڑے بھنائے۔ مولوی صاحب سے انہوں نے سوال کیا، یہ تمہارے کون لگتے ہیں؟ مولوی عبدالحق کسی سے دبنے والے نہیں تھے، ترنت بولے: یہ میرے باپ لگتے ہیں۔ میاں بشیر یہ سن کر دم بخود رہ گئے۔

ایم ایم حسن کچھ مسائل کی وجہ سے چند سال کے لیے پولیس سے انٹیلی جنس بیورو میں چلے گئے، وہاں پر ایوب بخش اعوان ڈائریکٹر تھے۔ ایم ایم حسن نے اعوان صاحب کی دلیری اور صاف گوئی کا ایک واقعہ بیان کیا۔ ایک بار صدر ایوب خان کراچی کے گورنر ہائوس آئے ہوئے تھے، ایوب بخش اعوان انہیں کوئی اہم رپورٹ دکھانے گئے، ایم ایم حسن ساتھ تھے۔ وہ دور سے سب ماجرا دیکھتے رہے۔ اعوان صاحب نے جنرل ایوب خان کو وہ فائل پیش کی، ایوب خان نے رپورٹ کا بغور مطالعہ کیااور پھر دونوں میں گرم گرم بحث شروع ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد ایوب بخش اعوان واپس آئے اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دفتر کی جانب چل پڑے۔ وہ غصے میں تھے، ایم ایم حسن کی طرف دیکھ کر بولے، یہ شخص (ایوب خان) اپنی اولاد کے متعلق کچھ سننے کو تیار نہیں ہے اور تم دیکھ لینا، یہی چیز اس کے زوال کا باعث بن جائے گی۔

بھٹو دور میں مسعود محمود بدنام زمانہ ایف ایس ایف کے ڈائریکٹرجنرل مقرر ہوئے، مسعود محمود نے ایم ایم حسن کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر لے لیا۔ ایم ایم حسن کہتے ہیں کہ وہ مسعودمحمود سے ان کے دفتر میں پہلی بار ملنے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ درودیوار پر قرآنی آیات کے طغرے لگے تھے۔ ایک پر مشہور آیت کریمہ لکھی تھی: ‘لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین’۔ ایک اور طغرے پر مشہور دعائے حضرت نوح لکھی تھی:’ رب انی مغلوب فانتصر ‘۔ ایم ایم حسن حیران ہوئے کہ مسعود محمود کا عمل ان آیات سے متضاد تھا۔ ایم ایم حسن کے بقول مسعودمحمود ہمیشہ اپنے افسران بالا کو خوش رکھتے۔ وزیراعظم بھٹو کا قرب حاصل کرنے کے لئے مسعود محمود نے تجویز کی کہ ان کے دونوں بیٹوں کے ہمراہ ہر وقت ایف ایس ایف کا مسلح محافظ سادہ کپڑوں میں متعین رہنا چاہیے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ مسعود محمود اسمبلی کے اجلاس میں حاضر رہتے، کابینہ کی اہم نشستوں میں شرکت کرتے۔ کابینہ کی کارروائی کے دوران انہیں ہر وزیر، سیکرٹری کا ردعمل، ان کی باہمی گفتگو اور ان کی حرکا ت وسکنات کے متعلق ایک مفصل رپورٹ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کرنا ہوتی۔ کئی بار وہ بتاتے کہ میں آج بہت تھک گیا ہوں، تیس یا بتیس صفحات کی رپورٹ لکھنا پڑی۔

وزیراعظم کے قرب نے مسعود محمود کا دماغ خراب کر دیا تھا، وہ کسی وزیر، سیکرٹری کو خاطر میں نہ لاتے۔ خان عبدالقیوم خان وزیر داخلہ تھے۔ رسمی طور پر ایف ایس ایف ان کے ماتحت تھی مگر مسعود محمود انہیں ذلیل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ جانے دیتے۔ ایک بار ایم ایم حسن کی موجودگی میں خان عبدالقیوم خان کے پی اے نے مسعود محمود کو فون کیا کہ وزیرداخلہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ جب قیوم خان لائن پر آئے تو مسعود محمود ان پر برس پڑے، کہنے لگے کہ جناب میں کسی اچھے خان کی بھی بے ہودگی برداشت کرنے کو تیار نہیں، اگر آپ کو مجھ سے بات کرنا ہے تو خود فون کرنا ہوگا، اپنے پی اے یا سیکرٹری کو بھول جائیں۔ ایم ایم حسن کو لگا کہ قیوم خان کی اس تذلیل میںمسعود محمود کو وزیراعظم بھٹو کی شہہ بھی حاصل تھی، ورنہ ایسا برتائو کرنے کی کبھی ہمت نہ پڑتی۔ ایک بار وزیراعظم بھٹو کی جانب سے ایف ایس ایف دفتر میں دس ہزار روپے وصول ہوئے۔ ہدایت کی گئی کہ یہ رقم ڈپٹی ڈائریکٹر غلام حسین بٹ کو بطور انعام دی جائے۔ ایم ایم حسن نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کسی آفیشل ڈنر پر ان کی آمد سے قبل بھٹو صاحب کے حکم پر غلام حسین بٹ نے پیپلزپارٹی کے لیڈر جے اے رحیم کی تذلیل اور مرمت کی تھی۔ بٹ کا تعلق پہلوانوں کے مشہور خاندان سے تھا اور وہ انٹرنیشنل گیمز میں باکسنگ میں سونے کا تمغہ بھی حاصل کر چکے تھے۔

مسعود محمود بیماری کی وجہ سے چھٹی پر گئے تو قائم مقام ڈی جی ایم ایم حسن بنے۔ ایک رات تین بجے وزیراعظم ہائوس سے فون آیا، اے ڈی سی نے کہا کہ بھٹو صاحب بات کرنا چاہتے ہیں، بھٹو نے چھوٹتے ہی کہا: حسن یہ نورانی (مولانا شاہ احمد نورانی) بڑی بدتمیزی کر رہا ہے، کبھی مجھے گالیاں دیتا ہے، کبھی میرے بیوی بچوں کو برا بھلا کہتا ہے، تم اسے ٹھیک کر دو۔ یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ ایم ایم حسن اگلے روز بوکھلائے ہوئے وزیراعظم کے پاس پہنچے اور ان کے حکم کی تفصیل دریافت کی۔ بھٹو نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انگریزی میں کہا: میں نورانی کو مروانا نہیں چاہتا مگر یہ ضرور میری خواہش ہے کہ اس کی دو چار ہڈیاں توڑ دی جائیں تاکہ وہ سبق سیکھ سکے۔ ایم ایم حسن نے ہمت کرکے اعتراض کیا تو بھٹو بگڑ کر بولے: تم کیا سمجھتے ہو، یہ فورس میں نے کس لیے بنائی ہے؟ کیوں اس پر اتنا پیسہ خرچ کررہا ہوں؟ ایم ایم حسن نے وزیراعظم کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مولانا کے کسی بااثر واقف کار کے ذریعے انہیں خاموش رہنے کا کہیں گے۔ بعد میں ایم ایم حسن نے ایسا ہی کیا، مگر نورانی میاں کہاں چوکنے والے تھے، کچھ دنوں کے بعد پھر بیان داغ دیا، مگر تب تک مسعود محمود چھٹی سے واپس آگئے، ایم ایم حسن کی جان چھوٹ گئی تھی۔ انہی دنوں بھٹو صاحب سے ائیرپورٹ پر ملاقات ہوئی تو بھٹو نے اشارہ کر کے بلایا اور انگریزی میں بولے: ‘میں نے تم سے کہا تھا کہ یہ ملا لاعلاج ہے۔’