بعض حضرات مصنوعی ذہانت سے اجتہادِ جدید اور فتویٰ نویسی جیسے کام کروانے کی سوچ رکھتے ہیں۔ ہم بس اتنی بات کرنا چاہیں گے کہ وہ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور اس کو مصنوعی ذہانت کے تناظر میں پڑھیں۔
”بعض حضرات فقہ اسلامی کی عصری تطبیق اور تصویرِ مسئلہ کی خارجی تمثیل کو جدید مسائل کا نام دیتے ہوئے خود رائی اور اجتہادِ جدید کی طرف لپکنے لگ جاتے ہیں، حالانکہ اب تک جدید کہے جانے والے تقریباً تمام مسائل کا حل فقہی فروع یا اصول و قواعد کی صورت میں ہی بتایا گیا ہے، اس بابت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسائل یا احکام نئے نہیں ہوتے، بلکہ ان کی صورتیں نئی ہوتی ہیں، فقہاء زمانہ کا کام ہوتا ہے جدید صورتوں کی قدیم فقہ کے ساتھ تطبیق کرنا، قدیم فقہاء کے اجتہادات کی بدولت فقہ ابداعی، تطبیقی اور تقدیری ہمارے سامنے آچکی ہے۔ ہمارا اجتہاد ان کے اجتہاد سے پائیدار نہیں ہوسکتا، اس لیے بلاوجہ فقہ قدیم سے جدید مسائل کے نام پر عدول کرنا نامعقول امر ہے۔ ہاں! اگر ایسی صورت پیش آجائے جس کا فقہ قدیم کے ذخیرہ میں نصاً، اصولاً، فرعاً، اثباتاًیا نفیاً کوئی حل نہ ملتا ہو تو اس کے حل کے لیے فقہاء امت کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں متدین و متعبد علماء کی مجلسِ مشاورت منعقد کی جائے گی اور وہ مجلس ایسی مشکلات میں امت کی دینی رہنمائی کرے گی۔ ایسے مسائل ان کے حل کے لیے رہنما اصول اور اجتہاد کے اصول و شرائط سے متعلق حضرت علامہ محمد یوسف بنوری کے چند گراں قدر مقالات جو فتاویٰ بینات کے شروع میں مقدمہ کے طور پرشامل ہیں، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے”۔ (حوالہ: مفتی رفیق احمد بالاکوٹی دامت برکاتہم، فقہ اور اصولِ فقہ کی تدریس! مسالکِ اربعہ میں ائمہ کے اختلاف کے بنیادی اجتہادی اصول۔ تیسری اور آخری قسط، ماہنامہ بینات، جون 2019ء )
تفقہ فی الدین، منصب افتاء اور مصنوعی ذہانت
فتویٰ نویسی پر ہم محدث العصر علامہ سیدمحمدیوسف بنوری کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ فتویٰ نویسی بچوں کا کھیل نہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس اقتباس کو ”مصنوعی ذہانت” کے تناظر میں پڑھیں۔
”بہرحال تفقہ فی الدین اور ”افتائ” کے بلند منصب پر ہر زید و عمرو کو فائز نہیں کیا جاسکتا، نہ ابوالفضل اور فیضی مزاج کے لوگوں کو اس پر براجمان کیا جا سکتا ہے، ہمارے ملک میں ہزاروں علمائ، ہزاروں مؤلف اور ہزاروں مبلغ موجود ہیں لیکن ایسے حضرات بس چند گنے چنے ہی ہوں گے جنہیں تفقہ کا منصب جلیل حاصل ہے اور امت ان کے علم و عمل پر اعتماد رکھتی ہے، فتویٰ نویسی بچوں کا کھیل نہیں کہ ہر شخص کو اس کا اہل سمجھا جائے، اگرچہ اسلامی حکومت کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے آج کل برساتی کیڑوں کی طرح نام نہاد فتویٰ نویسوں کا سیلاب امنڈنا شروع ہوگیا ہے جس کے ہاتھ میں قلم ہے اور اس نے الٹے سیدھے چند سیاہ حروف پڑھ لئے ہیں وہ مفتی بن بیٹھا ہے اور خلق خدا کو گمراہ کرکے اپنے نامہ عمل کی سیاہی میں اضافہ کررہا ہے لیکن امت مسلمہ کے ایک عامی شخص تک میں بھی ابھی اتنا شعور موجود ہے کہ وہ واقعی مفتی اور ”مصنوعی مفتی” کے درمیان اور صحیح عالم اور ”عالم نما جاہل” کے درمیان تمیز کر سکے۔” (حوالہ: محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری، بصائروعبر:١/٦١، ٧١، طبع: مکتبہ بینات، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی)۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی قدس سرہ اکثر فرمایا کرتے تھے: ”محض فقہی کتابوں کی جزئیات یاد کرلینے سے انسان فقیہ یا مفتی نہیں بنتا؛ میں نے ایسے بہت سے حضرات دیکھے ہیں جنہیں فقہی جزئیات ہی نہیں، ان کی عبارتیں بھی ازبر تھیں، لیکن ان میں فتویٰ کی مناسبت نظر نہیں آئی۔ وجہ یہ ہے کہ درحقیقت ”فقہ” کے معنی ”سمجھ” کے ہیں اور فقیہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے دین کی سمجھ عطا فرمادی ہو اور یہ سمجھ محض وسعت مطالعہ یا فقہی جزئیات یاد کرنے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کسی ماہر فقیہ کی صحبت اور اس سے تربیت لینے کی ضرورت ہے”۔ (حوالہ:حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم، میرے والد میرے شیخ، صفحہ: 65، ادارة المعارف کراچی)
سوال یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مشینوں میں دین کی ”سمجھ” کہاں سے آئے گی؟ نیز ان مشینوں کو اکابر مفتیانِ کرام کی صحبت کیسے نصیب ہوگی؟ ان مشینوں میں اخلاص، للہیت، تقویٰ، اور دیگر فضائل کیسے آئیں گے؟ اسی بات کو اکبر الہ آبادی مرحوم نے بھی کہا ہے۔ بقول شاعر
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی، آدمی بناتے ہیں
ہمارے اکابرین صرف فقہی جزئیات کی عبارتیں ازبر کرنے اور وسعت مطالعہ سے کسی کو مفتی نہیں سمجھتے تھے۔ آج یہ پھر کیسے سمجھا جاسکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مشینیں فتویٰ نویسی کا کام کرسکتی ہیں؟ جو صاحبانِ علم مصنوعی ذہانت کو خود استعمال کر رہے ہیں اور عوام الناس کو بھی اس کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں، کیا ان صاحبانِ علم کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ عوام الناس کو متقی باعمل مفتیانِ کرام کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دیں اور خود بھی مصنوعی ذہانت کو فتویٰ نویسی میں استعمال کرنے سے گریز کریں؟

